تاریخ عزاداری


یوں تڑپتے ہیں محرم کے لئے اہل عزا
حبس میں جیسے کوئی تڑپے ہوا کے واسطے
(ماخوذ)

لغوی بیانیے کے مطابق لفظ عزاداری فارسی کا ہے جس کے معنی سوگواری یا غم منانے کے ہیں۔ عام طور پر آپ سنیں گے کہ مجلس، ماتم، اور عزاداری جیسی روایت نئی نویلی ہیں اور ان کا تاریخ سے یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ، اسلام کا سیاسی رخ بدلنے اور بنانے میں سب سے بڑا واقعہ، واقعہ کربلا ہے۔ یہ وہ سانحہ ہے جس نے صحیح اور غلط، حق و باطل، سیاہ و سفید، ظالم و ملزوم، اور ایسی تمام تفریق کو میدان کربلا کے پلڑے میں کھڑا کردیا۔ یوں تا قیامت، بنی آدم کے لئے اپنا راستہ چننے میں آسانی ہوگئی۔

بعد از کربلا، تقریباً ایک سال کے بعد جب اسیران شام کی رہائی ہونے جارہی تھی، تب یزید نے حضرت زینبؑ سے پوچھا اگر بی بی کی وقت رخصت کوئی خواھش ہو۔ بی بی زینب نے فرمایا کہ جنگ کے بعد انہیں اپنے پیاروں کی بے درد شہادت پر رونے اور گریہ وزاری کا موقع نہیں ملا۔

یوں زینبؑ بنت علیؑ نے تاریخ میں پہلی عزاداری برائے کربلا کی بنیاد رکھی!

10 محرم، روز عاشور جب امام حسینؑ نے ”ھل من الناصر؟ “ کی صدا لگائی تھی توکوئی نہیں آیا تھا اور امام نے اپنے خاندان، صحابہ، اور ناصرین کے ساتھ یہ جنگ اکیلے لڑی۔

اس روز کے بعد، مسلمان بلخصوص شیعہ مسلمان عزاداری حسین کا اہتمام کرتے ہیں اور زمانے میں ہونے والی نا انصافی اور عدم مساوات کے خلاف یک آواز ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ محرم کا پہلا عشرہ اور اس میں ہونے والی مجالس، کائنات کے لئے یاد دہانی ہیں کہ واقعہ کربلا کیا تھا، کیوں تھا، اور کس کے ساتھ پیش آیا تھا۔

یتزاک نکاش، شیعہ تاریخ کے ماہرین میں سے ہیں اور ان کی ریسرچ کے مطابق بی بی زینبؑ کے بعد بھی عزاداری حسین کا سلسلہ جاری تھا۔ خلافت امیہ کے دوران عزاداری کا رواج خاموش اور ایک طرح سے تقیے کی نذر تھا۔ تمام مجالس و گریہ امام یا ان کے شیعوں کے گھر منعقد ہوتی تھیں۔ عباسی خلافت کے دوران یہ مجالس کچھ عرصہ کھلے عام ہوئیں۔

لفظ عزا الحسین کا طریقتاً استعمال پہلی بار حضرت امام جعفر صادقؑ نے اپنے دور میں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے جد کو رونے والی مجلس کی میں تائید کرتا ہوں۔

پیٹر چیلکووسکی نیو یارک جامعہ سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ و حالات پر عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک ریسرچ جرنل میں بیان کیا ہے کہ عزاداری کا پہلا سرکاری درجے کا واقعہ چوتھی صدی میں، سلطان معیز الدین دولہ کے دور میں پیش آیا تھا۔ تب بازار و دفاتر بند ہوتے تھے اور روز عاشور عزاداری بپا ہوتی تھی۔

دوسری طرف جے۔ کلمرڈ نے اپنے مذہبی مقالے میں لکھا ہے کہ ایران میں عزاداری اور ماتم کی روایت بارہویں صدی میں زور پکڑ گئی، اور صفوی خلافت کے دوران اس کو بھی سرکاری درجے پر لایا گیا۔

تیمور لنگ کا دور آیا اور عزاداری کا دائرہ جغرافیہ فارس اور عراق سے نکل کر سمرقند، بخارا، اور آگے تک آگیا۔ ہم یہاں صرف تاریخ عزاداری کا بیان کر رہے ہیں تو ان ادوار اور بادشاہوں کی سیاسی اور مذہبی رجحانیت کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

برصغیر میں یوں تو حوالہ ہے کہ سندھ میں جب عرب بسنا شروع ہوئے تو عزاداری کا اہتمام ہوا، مگر اس عزاداری کی صحیح شروعات لکھنؤ سے ہوئی جہاں آج بھی سب سے بڑا مرکزی جلوس روز عاشور نکلتا ہے۔ مرثیہ کی روایت یوں تو امام جعفر صادقؑ کے زمانے سے ہے لیکن اردو میں مرثیے کو روح بخشنے کا سہرا لکھنؤ کے سر جاتا ہے۔

اٹھارویں صدی نے لکھنؤ کو ایک سے بڑھ کر ایک مرثیہ لکھنے والوں سے نوازا جیسے میر انیس، مرزا دبی، اورعلی حیدر طباطبائی وغیرہ لکھنؤ کی عزاداری نے برصغیر میں امام حسین کے غم کو آگے بڑھایا اور تبلیغ کی صورت پھیلا دیا۔

1930 میں مولانا سبط حسن وہ پہلے مولانا تھے جنہوں نے لکھنؤ میں عزاداری کو لیکچر کی شکل دی جو آج تک تمام مجالس میں دوہرائی جاتی ہے۔ مولانا کے اس طریقت میں پہلے سلام، پھر مرثیہ، پھر ذاکر کا بیان جو فضائل اور مصائب پر مبنی ہوتا ہے، اور سب سے آخر میں نوحہ خوانی ہوتی ہے۔

عزاداری نے بیسویں صدی میں جو نیا رخ لیا اس سے شیعہ مسلمانوں کو پیغام حسینی اور مقصد حسینی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی۔ یہ ایک ایسی تبلیغ کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ جو چاہے آ کر بیٹھے، سنے، سوال پوچھے، سمجھے، بلا تفریق!

محرم میں ہونے والی عزاداری دراصل ایک یاد دہانی ہے ہر ذی روح کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو کہ ہر دور میں سوچ دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں ؛ یا حسینی یا یزیدی۔ ہر زمانے میں حق کی لڑائی لڑنی ہوگی، سچ کی قیمت خون سے ادا کرنی ہوگی، دشمن بہت دوست کوئی کوئی ہوگا۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں ’حسین‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).