بچوں کے دوست بنیے باڈی گارڈ نہیں


ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ خطوط کا سلسلہ شروع کیا ہے تو سوچا کچھ باتیں سعید ابراہیم سر سے بھی پوچھی جائیں اسی سلسلے میں نوشی بٹ کا پہلا خط

آداب!
امید واثق ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور آپ کے خیالات کی طرح ہی آپ کی زندگی بھی مست چل رہی ہو گی۔

سوال تو بہت سارے ہیں لیکن ایک خط میں ایک سوال ہی لکھوں گی تا کہ پڑھنے والے بھی سمجھ کے پڑھیں اور طوالت سے بور بھی نہ ہوں۔ ہمارا سماج سوچ و شعور کے لحاظ سے ابھی تہذیب و ترقی یافتہ معاشروں سے تو بہت پیچھے ہے لیکن یہ ہم والدین ہی ہیں جو سماج کی بہتری میں حسب توفیق حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارے پاس ہماری اولاد کی صورت میں افراد موجود ہیں جن کی شعوری تربیت سے آنے والی نسلیں یقینا بہتر ہوتی جائیں گی۔

سوال یہ ہے کہ بطور والدین ہمیں موجودہ دور میں اپنے بچوں کے ساتھ کس طرح رہنا چاہیے۔ ہم میں سے بہت سے والدین ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنے بچپن میں بہت سختیاں و پریشانیاں دیکھی ہوں گی۔ یقینا وہ اپنی اولاد کے ساتھ ویسا رویہ نہیں رکھتے جیسا ان کے ساتھ بیت چکا ہوتا ہے۔ لیکن والدین کی نرمی اگر اولاد کو منہ زور اور خودسر بنا دے تو ایسی صورت میں کس طرح کا رویہ اپنایا جائے؟

ہم سمجھتے اور مانتے ہیں کہ والدین ہونے کے ناتے ہماری ذمہ داریاں زیادہ ہیں پر بطور اولاد ان بچوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتے؟

میں بچوں کو سمجھاتے ہوئے ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ آپ ہمیں والدین کی بجائے اپنا گارڈیئن سمجھیں جو کہ اچھی بری بات پہ آپ کو سمجھاتے ہیں۔ تب تک جب تک آپ بالغ و سمجھدار نہیں ہو جاتے اس کے بعد یہ دنیا آپ کے لیے آسمان ہے اور آپ پرندے۔ جہاں چاہے اڑو۔ جہاں مرضی رکو۔ جہاں مرضی ہجرت کر جاؤ۔ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ جیسے کبھی کبھی یہ سب چیزیں بھی بچے فارگرانٹڈ لینے لگتے ہیں؟ ایسی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ جواب کا انتظار رہے گا۔ امید ہے تسلی بخش جواب سے ہمیشہ کی طرح سیکھنے کو ملے گا۔

جی نوشی، تسلیمات!

آپ کا یہ خط میرے لیے اس کلید جیسا ہے جس سے بند ذہن کے کئی درکھولے جاسکتے ہیں۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ محبت کی آنکھیں ہونا لازم ہے کیونکہ اندھی محبت ہمیں کسی بھی وقت گڑھے میں پھینک سکتی ہے۔ محبت احساس کی اعلیٰ ترین صورت ہے مگر شعور سے تہی ہو تو محض ایک بیمار حساسیت۔ محبت کا تعلق ایک دوسرے کی شخصیت کے نکھار اور گروتھ سے ہے ناں کہ تباہی اور بربادی سے۔ خط میں پوچھے گئے سوالات دراصل احساس کے جذبے کی بنیاد پر کھڑے ایک عقلی اور شعوری وجود کے سوال ہیں جو ہمیں عمدہ اور قابلِ عمل جوابات کی جانب لے جاسکتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ ہمیں ماننا ہوگا کہ اولاد ہماری ذات سے باہر ایک الگ، مختلف اور آزاد وجود ہے جس کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف اور صرف محبت کا ہے ناں کہ جبر اور ملکیت کا۔ ہمیں اس سوچ سے بھی نجات پانا ہوگی کہ ہمارا بچہ ہمارے مستقبل کی گارنٹی ہے۔ یہ سوچ ناں صرف بچے کی بطور انسان گروتھ کے امکانات کو برباد کرسکتی ہے بلکہ یہ ہمارے کاندھوں پر ایک مستقل بوجھ لاد دے گی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

بچے کو بطور انسان تسلیم کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ میاں بیوی کا ایک پیج پر ہونا شرط ہے۔ بچہ باتوں اور نصیحتوں سے نہیں، والدین کی پریکٹس سے سیکھتا ہے۔ آپ اگر نفرت اور لڑائی کے خوگر ہیں تو بچے کو محبت اور امن پسندی کا سبق نہیں پڑھاسکیں گے۔ اگر آپ دوسروں سے اپنے لیے محبت، احترام اور شاباش کے رویوں کے خواہشمند ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کے بچے کو بھی آپ سے انہی رویوں کی ضرورت اور خواہش ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو بچے کی شخصیت کو سب سے خطرناک دشمن سے نجات دلا سکتا ہے۔ اور اس دشمن کا نام ہے خوف۔ ایک ایسا خوف جو وجود نہیں رکھتا مگرہم خود تخلیق کرتے ہیں۔ جیسے کہ جنوں اور بھوتوں کا خوف۔

اگر واقعی بچے کی بطور انسان گروتھ ہمارے پیشِ نظر ہے تو ہمارا رویہ، سوچ اور عمل یکسر بدل جائیں گے۔ بچے کے لیے گھر بنیادی درسگاہ ہے۔ ہمیں اس درسگاہ کو ممکنہ حد تک دلچسپ اور پرکشش بنانا ہوگا۔ گھر کی اس درسگاہ میں ایسی سرگرمیوں کو رواج دینا ہوگا جو ناں صرف بچے کو بلکہ ہمیں بھی بے زار نہ ہونے دیں۔ ظاہر ہے یہ سرگرمیاں تخلیقی نوعیت کی ہی ہوں گی۔ جیسے کہ ڈرائنگ، موسیقی اور رقص۔ بچہ فطری طور پر ان تینوں فنون کی طرف بے محابہ متوجہ ہوتا ہے۔

ہم اسے ماں کے پیٹ سے ہی عمدہ موسیقی اور گیت سننے کی عادت ڈال سکتے ہیں جو لامحالہ اس کی طبع پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔ ہمیں چاہیے کہ دو اڑھائی ماہ کی عمر سے ہی اسے بچوں کی نظموں کی ویڈیوز دکھانا شروع کردیں۔ کمرے کی دیواروں کو رنگا رنگ تصویروں سے سجادیں۔ اور جب وہ اپنے سہارے بیٹھنے لگے تو اسے تصویروں سے مزیئن کتابیں لاکر دیں جنہیں وہ الٹا پلٹتا رہے۔ اب تو ایسی کتابیں بھی دستیاب ہیں جو پانی میں بھی خراب نہیں ہوتیں۔ گویا آپ بلا خوف یہ کتابیں بچے کو اس کے چھوٹے سے سوئمنگ پول میں بھی تھما سکتے ہو۔

اب اگلی بات یہ کہ بچے سے بچہ بن کر بات مت کیجئے۔ اپنے ذہن سے یہ بات نکال دیجئے کہ وہ آپ کی بات سمجھنے کے قابل نہیں۔ اگر آپ اس سے واضح انداز میں بات کریں گے تو وہ بہت جلد آپ کا مافی الضمیر سمجھنا شروع کردے گا۔ وہ آپ کا موڈ اور رویہ بھی سمجھنے لگے گا۔ وہ سمجھنے لگے گا کہ آپ اس کی کس بات سے خوش ہوتے ہیں اور کون سی حرکت پہ ناراض۔ یاد رکھئے اس کے نزدیک آپ جتنے زیادہ اہم ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ آپ کے موڈ کا بھی خیال رکھے گا۔ اور آپ کو شاید ہی کبھی اسے ڈانٹنے ڈپٹنے کی ضرورت پڑے۔

مڈل کلاس والدین کے لیے عموماً دو مراحل بڑے مشکل ہوتے ہیں۔ ایک وہ جب وہ کسی کے مہمان بنتے ہیں اور دوسرا مرحلہ وہ جب وہ اپنے ہاں کسی کی میزبانی کرتے ہیں۔ انہیں یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کہیں بچے خود سے ہی ٹیبل سے کوئی کھانے کی چیز نہ اٹھالیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ بچے کی اس حرکت سے ہم بڑوں کی تہذیب یا عزت کو کیا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کو ڈر ہے کہ بچہ ٹیبل پر ”حملہ آور“ ہوکر آپ کی تربیتی صلاحیتوں کو شرمندہ کرسکتا ہے تو اسے روکنے کی بجائے اس کے معاون بن جائیں۔ اسے خود پوچھیں کہ وہ کیا لینا پسند کرے گا۔ بچے کو گھر آئے مہمانوں سے گھلنے ملنے دیں۔ ہاں مگر براہِ کرم اسے خوامخواہ ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار سنانے پر مجبور نہ کریں۔

روٹین میں بچے کے ساتھ اسی بے تکلفی کے ساتھ بات چیت کیجئے جیسے آپ دوستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر آپ اس کی کسی حرکت سے ناراض ہیں تو اسے واضح طور پر بتائیے کہ آپ اس سے واقعی ناراض ہیں اور کس وجہ سے ناراض ہیں۔ اور جب تک وہ آپ کی ناراضگی کو رئیلائز نہ کرلے، اپنا موڈ برقرار رکھیں۔ ہاں البتہ اسے کسی بھی طرح کی سزا دینے سے احتراز کریں۔ غلطی مان لینے پر اس کی تعریف کرنا مت بھولیں۔

آپ کا کردار بچے کو سہولیات اور اشیائے ضرورت فراہم کرنے والے کا ہے، مگر محبت اور ذمہ داری کے ساتھ۔ تاکہ بچے اپنی خوشیوں اور ضرورتوں کے لیے آپ کے کردار کی اہمیت سے ہمہ وقت واقف رہیں۔ اور بدلے میں وہ بھی اپنی بساط کے مطابق آپ کی ضرورتوں کا احساس کرنے لگیں، بھلے اس کا تعلق پانی کا گلاس دینے سے ہو یا محض ایک مسکراہٹ یا جپھی سے۔

بچوں کے ساتھ مکالمے کا ماحول ناگزیر شرط ہے جو ان کے ساتھ مشترکہ سرگرمیوں سے ہی بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ ان کے ساتھ مل کر ڈرائنگ کرنا یا کیک بنانا۔ مگر ان کاموں کو ڈسپلن کی سختی سے ممکنہ حد تک بچائیں۔

بچے والدین کو اسی صورت میں فارگرانٹڈ لیتے ہیں جب وہ یک طرفہ طور پر ان پر اپنی محبتیں اور لاڈ نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کو آزادی ضرور دیجئے مگر انہیں اس آزادی کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیجئے۔ لیکن لیکچر اور وعظ سے نہیں بلکہ عمل سے۔ اپنے اس عمل میں جملہ فنون کو شامل رکھیے، جیسے کہ رقص، مصوری، موسیقی اور اداکاری وغیرہ۔ بچوں کے ساتھ مل کر وقتاً فوقتاً ہلکا پھلکا تھیٹر کیجئے۔ کہانی بنائیے اور اس میں ان سے بھی مشورہ لیجیے۔ جب انہیں کہیں باہر سیر کے لیے لے کر جائیں (جیسے کہ پارک، سینما، چڑیا گھر یا میوزیم) تو تھوڑی دیر کے لیے ضرور سوچیں کہ اس سیر کے دوران انہیں کس کس شے سے اور کیوں متعارف کروانا ضروری ہوگا۔

ہاں مگر آخر میں ایک بات پوری توجہ سے سمجھ لیں کہ ہم صرف اپنی ذات کو بدلنے اور بہتر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو ہمارے اردگرد افراد کو متوجہ بھی کرتی ہے اور انسپائر بھی۔ سو اپنے بچوں کو اپنے منصوبوں کے مطابق ڈھلنے پر مجبور مت کیجئے بلکہ صرف انسپائر کیجئے۔ یقین کیجئے وہ خود بخود اپنی ذات کا مفہوم تلاشنے کی جانب مائل ہوجائیں گے۔ عین ممکن ہے کئی جگہوں پر وہ خود آپ کو سکھانے والے بن جائیں۔

خیراندیش
سعید ابراہیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).