پاکستان کی خارجہ پالیسی: مفروضے، اندیشے اور دھمکیاں


کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے اور بھارتی حکومت کے انتہاپسند چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے میں عمران خان حتی الامکان کوشش کررہے ہیں۔  بیان، تقریر اور ٹوئٹ کے مؤثر ہتھیاروں سے لیس اگست کا پورا مہینہ تحریک انصاف کی حکومت کے کارپردازوں نے اسی جد و جہد میں گزارا ہے۔

وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اطلاعات کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اہل پاکستان کو یہ باور کروانے پر بضد ہیں کہ حکومت کی اس گرمجوشی کی وجہ سے پوری دنیا کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور بھارت میں ہندوتوا کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پوری طرح باخبر ہو چکی ہے۔  اس بیانیہ کے مطابق رہی سہی کسر اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران پوری ہوجائے گی، جب عمران خان بنفس نفیس اقوام عالم کو کشمیر کی صورت حال، مودی حکومت کے جبر اور بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے خوفناک عواقب سے آگاہ کریں گے۔  وزیر اعظم کشمیر کے سوال پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ خود کشمیریوں کے سفیر بنیں گے اور دنیا میں ان کا مقدمہ ذاتی طور پر پیش کریں گے۔  جنرل اسمبلی میں تقریر کو ایک ایسا ہی موقع سمجھا اور قرار دیا جارہا ہے۔

حکومت پاکستان کی کارکردگی کو اگر اس کی شاندار سفارتی اور سیاسی کامیابی کے طور پرقبول کر بھی لیا جائے تو بھی یہ سوال تو جواب طلب رہے گا کہ ان کوششوں سے عملی طور سے کیا استفادہ کیا گیا ہے۔  یا کشمیریوں کو پاکستانی قیادت کے ان گرم جوش بیانات سے کیا فائدہ پہنچے گا۔ بھارت کا خود سر اور ضدی وزیر اعظم چار ہفتے گزرنے کے باوجود کشمیریوں کی بنیادی سہولتیں بحال کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔  خبروں کے مطابق دیہات اور چھوٹے قصبوں میں سیکورٹی نرم ضرور کی گئی ہے لیکن مواصلات یعنی ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بدستور بند ہیں۔

اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں نقل و حرکت پر بھی کڑی پابندیاں عائد ہیں۔  سری نگر میں سیکورٹی کی صورت حال بدستور سخت ہے اور سڑکوں اور گلیوں پر فوج کا پہرا ہے۔  یعنی عمران خان اور حکومت پاکستان کے نمائندوں کی طرف سے مسلسل شور مچانے اور اس سنگین انسانی المیہ کی طرف توجہ دلانے کے باوجود نہ بھارتی حکومت ٹس سے مس ہونے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی دنیا نے اس پر کوئی خاص توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی ہے۔

امریکہ ہو یا چین، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہوں یا اسلامی تعاون تنظیم (اؤ آئی سی)، ان کی طرف کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا جو پیغام بھی سامنے آیا ہے اس میں دونوں ملکوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔  ان بیانات کے متن کو پاکستان اور بھارت اپنے اپنے طور پر اپنے مؤقف کی حمایت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔  کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 70 برس پہلے قرادادیں منظور کی تھیں۔  ان دوران پاکستان کے علاوہ دنیا کے متعدد ملکوں کی طرف سے ہزاروں بار ان قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ تو کیا وجہ ہے کہ دنیا اب بھارت کو ان قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر مجبور کرلے گی؟

پاکستان کی کشمیر پالیسی میں جوش بدستور ہوش پر حاوی ہے۔  حکومت حالات کے تناظر میں صورت حال کا جائزہ لینے اور نئے آپشنز پر غور کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ بھارت نے اس دوران خاموش سفارت کاری کا طریقہ اختیار کیا ہے۔  بظاہر وہ اس میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔  پاکستان کی طرف سے ہندو انتہا پسندی پر زور دیتے ہوئے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند حکومت کا جن سنگھی نظریہ مسلمان اقلیت کے لئے مصائب کا سبب بنا ہؤا ہے۔

اسی لئے یہ مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وہاں پر مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اقدامات کرے گی۔ نئے قانون کے تحت چونکہ غیر کشمیریوں کو مقبوضہ وادی میں جائیداد خریدنے کا حق حاصل ہو گیا ہے، اس لئے یہ اندیشہ سامنے لایا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔

عالمی سفارت کاری اور سیاست کا المیہ البتہ یہ ہے کہ یہ مفروضوں کی بجائے رونما ہونے والے واقعات پر اپنا مؤقف اور لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔  اقوام متحدہ یوں تو ایک رسمی عالمی ادارہ ہے جسے درحقیقت پانچ بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے یرغمال بنایا ہؤا ہے لیکن وہاں پر رسمی طور سے بھی انہی معاملات پر غور کیا جاتا ہے جو ہنگامی نوعیت کے ہوں۔  اگر دوملکوں میں جنگ چھڑ جائے یا بڑا انسانی نقصان ہوجائے اور ویٹو کا حق رکھنے والے تمام ممالک بھی اسے درگزر نہ کر سکتے ہوں تب ہی سلامتی کونسل میں کوئی ایسی قرارداد منظور ہوسکتی ہے جس کے نتیجہ میں زمینی حالات میں تبدیلی رونما ہوسکے۔

جیسا کہ 90 کی دہائی میں بوسنیا کی صورت میں ہؤا تھا۔ یا شام و عراق کے وسیع علاقوں پر داعش کے قبضہ کے بعد ایک عالمی اتحاد وجود میں آیا تھا۔ کشمیر کے حوالے سے ایسی صورت حال موجود نہیں ہے۔  اس لئے اخباری تبصروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی لیڈروں کے بیانات میں بھی کشمیر میں پابندیوں اور انسانوں کو پہنچنے والی تکالیف پر زور دیتے ہوئے انہیں ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے۔  کشمیر کی آزادی ایک موضوع کے طور پر عالمی ایجنڈا کا حصہ نہیں ہے۔  ایک ماہ سے جاری پاکستانی حکومت کی کوششیں اور عمران خان کے تند و تیز بیانات بھی اس میں تبدیلی لانے کا سبب نہیں بن سکے ہیں۔  سوچنا چاہیے کہ یہ پالیسی کیسے مؤثر ہوسکتی ہے۔

عمران خان کشمیر اور بھارت کے بارے میں بات کر تے ہوئے دھمکانے، اشتعال دلانے اور پروپیگنڈا کو ہتھیار بنائے ہوئے ہیں۔  یہی فی الوقت پاکستان کی حکمت عملی بھی دکھائی دیتی ہے۔  اسلامک سوسائیٹی آف نارتھ امریکہ (انسا) کے 56 ویں سالانہ کنونشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنا سارا زور بیان بھارت میں آر ایس ایس کی طاقت کو واضح کرنے پر صرف کیا اور کہا کہ دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ انتہا پسندانہ رویہ جرمنی کے نازی ازم کی طرح، دنیا کے لئے مہلک اور خطرناک ہو سکتا ہے۔  انہوں نے کنونشن کے شرکا سے اپیل کی کہ وہ بھی بھارت کا یہ گھناؤنا چہرا سامنے لانے میں کردار ادا کریں تاکہ بھارت کے خلاف عالمی رائے تیار کی جا سکے۔

اسی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ ’کشمیر میں سیکورٹی کے نام پر پابندیاں اور میڈیکل سہولتوں کا فقدان قابل قبول نہیں۔  امریکہ کو وہاں پر عائد مواصلاتی پابندیوں کو ختم کروانے اور اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے‘ ۔  امریکہ جب بھی یہ کردار ادا کرے گا تو وہ دونوں ملکوں سے بات چیت شروع کرنے کے لئے کہے گا جیسا کہ ثالثی کی بات کرنے کے بعد پیرس میں نریندر مودی سے ملاقات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مل جل کر مسئلہ حل کرنے کی ضرورت پر زور دے کر بات ختم کردی۔ پہلے نریندر مودی کی حکومت دہشت گردی کو عذر بنا کر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات سے انکار کرتی تھی۔ اب عمران خان نے کشمیر پرکیے  گئے فیصلوں اور وہاں نافذ کرفیو کا عذر تراش کر بات چیت سے انکار کیا ہے۔  یعنی مسئلہ کے حل کے لئے کسی پیش رفت کا فوری امکان نہیں ہے۔

عمران خان کی پالیسی کا بنیادی زور برصغیر میں ایٹمی جنگ کے خطرے اور بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی سے دنیا کو آگاہ کرنے پر ہے۔  خارجہ پالیسی کے ان دونوں نعرہ نما پہلوؤں کا ایک ہی پیغام ہے کہ دنیا کی طاقتیں اور اقوام متحدہ معاملہ کی سنگینی کو سمجھیں اور مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لئے میدان میں کود پڑیں۔  حکومت کو البتہ اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دھمکی اور اندیشے کی بنیاد پر کوئی بھی ملک یا ادارہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صلح کروانے کے لئے نہیں آئے گا۔ یہ کام ان دونوں ملکوں کے لیڈروں کو خود کرنا ہوگا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کرچکے ہیں کہ جنگ پاکستان کا آپشن نہیں ہے۔  وزیر اعظم اور آرمی چیف بھی جب منہ توڑ جواب دینے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھارت کی طرف سے جنگ میں پہل کی صورت میں پاکستان کے ردعمل کا اشارہ ہی ہوتا ہے۔  ان حالات میں حکومت پاکستان کو ان پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کیوں بھارت کے خلاف پاکستان کے شور شرابا پر غور کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔  کیا وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چار ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن کے باوجود کسی ملک یا عالمی ادارے نے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی بات نہیں کی ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام تر الزام تراشی اور کشمیر میں کی جانے والی زیادتی کے باوجود د دنیا اب بھی بھارت کو ایک فعال جمہوریت سمجھتی ہے جہاں عدالتیں تمام امور کی نگرانی کرتی ہیں۔  بھارت کی سپریم کورٹ نے فوری طور پر کشمیر میںکیے  گئے اقدامات پر مداخلت کرنے سے گریز کیا ہے۔  البتہ قانونی تبدیلیوں پر پیٹیشنز کی سماعت اکتوبر میں شروع ہونے کا امکان ہے۔  اس حوالے سے حکومت کو نوٹس بھی جاریکیے  گئے ہیں۔

بھارت بدستور یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے کہ حالات اس کے کنٹرول میں ہیں اور اس کا نظام جمہوری اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہے۔  سوال ہے کہ کیا پاکستان دنیا کو ڈرا کر اسے بھارت کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے؟ بظاہر اس کا امکان نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali