کیا ایوب دور واقعی ہمارا سنہری دور تھا؟


رواں ماہ پاکستان اپنی عمر کی 72 بہاریں دیکھ چکا۔ گزرے ہوئے ہر عشرے میں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں نئی قسم کی حکومت قائم ہوئی۔ ممکن ہے کہ کوتاہ بین آنکھ مختصر مدت کی ترقی کودیکھ کر ایوب اور مشرف حکومت کو بہترین ادوار قرار دے، لیکن اگر پائیدار معاشی، سیاسی اور سکیورٹی ترقی کا گہرائی میں جاکرجائزہ لیں تو مختلف صورت ِحال دکھائی دیتی ہے۔ پائیدار سیاسی ترقی سے مراد شفاف او ر منصفانہ انتخابات ہیں، جن کے نتیجے میں بہتر گورننس وجود میں آئے اور تمام سماجی گروہوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔ پائیدار معاشی ترقی کے لیے عموماً شرح نمو کو دیکھا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ضروری ہے۔ سکیورٹی کے استحکام کا تعلق سیاسی او ر معاشی استحکام سے ہے۔

تینوں آرمی ادوار میں ان شعبوں کا گراف یکساں تھا۔ جمہوری حکومت کی ناقص کارکردگی کو جواز بنا کر مارشل لا لگایا گیا۔ کم و بیش ہر غریب ریاست کو ایسی ناقص گورننس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن زیادہ تر افواج اس کو جواز بناتے ہوئے حکومت کا تختہ نہیں الٹتیں۔ سیاسی نظام جاری رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر دور میں حقیقی جمہوریت کا وعدہ کیا گیا، لیکن ہم نے دھاندلی زدہ انتخابا ت اور فرد ِ واحد کی حکومت دیکھی۔ حکومت سازی کے عمل میں اہم سیاسی جماعتوں اور نسلی گروہوں کو الگ رکھا گیا۔ گورننس کا معیار ناقص رہا۔ حتیٰ کہ ایوب خان کی بیوروکریسی، جس کا بہت چرچا کیا جاتا ہے، کی توجہ بھی مخصوص سروسز پر تھی۔ قانون سازی کا عمل کمزور تھا۔ ہر فوجی دور کے اختتام پر کسی نہ کسی جعلی سیاسی دور کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد جب بھی منصفانہ انتخابات ہوئے (2008, 1988, 1970)، پی پی پی ہی جیتی۔

اگر اس دوران معاشی نمو کا گراف اونچا رہا، تو اس کی وجہ محدود مدت کے لیے سیاسی بنیادوں پر ملنے والی معاشی امداد تھی۔ امداد کا سلسلہ موقوف ہوتے ہی معاشی ترقی کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ہم اُس وقت ایشیا کے ٹائیگر تھے۔ نہیں، ہم اُس وقت امریکہ کے پٹھو تھے۔ ایوب دور میں صنعتیں لگیں، لیکن وہ زیادہ تر ہلکی صنعتیں تھیں۔ وہ ارتقائی عمل کے ذریعے بھاری صنعتوں میں تبدیل نہ ہو سکیں، جیسا کہ کوریا میں ہوا تھا، کیونکہ اس کے لیے سیاسی استحکام درکار تھا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ملک کے مختلف خطوں میں تناؤ پیدا کردیا۔ ضیا اور مشرف ادوار میں معاشی ترقی کی شرح بہت معمولی رہی، اور اس سے معیشت میں بہتری نہ آ سکی۔ سیاسی اورمعاشی ترقی کے بغیر ہر دور میں تشدد کا طویل باب رقم ہوا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس تشدد کے سرے امریکی روابط سے ملتے ہیں جن کی وجہ سے محدود مدت کے لیے امداد ملی تھی، اور ہمیں معاشی ترقی کا تاثر ملا تھا۔ ان تینوں ادوار کی ناکامیاں انہیں تین بدترین ادوار بناتی ہیں۔

اگرچہ ایوب، یحییٰ اور مشر ف ادوار میں تشدد کی لہر بہت اونچی تھی، لیکن ضیا دور کی پالیسیوں نے موجودہ پاکستان کے مسخ شدہ خدوخال کی بنیاد رکھی۔ سماجی طور پر اُس دور نے تنگ نظری اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہوئے سیاست کو عقیدے کے تابع کر دیا۔ سیاسی طور پر اس کی توجہ قومی ایشوز کی بجائے بدعنوان سیاست دانوں کی سرپرستی پر رہی۔ معاشی طور پر اس نے ریاست کو مالیاتی خسارے، بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسا دیا۔ صنعت اور تجارت کو ترقی دینے کی بجائے کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس جانا واحد معاشی سرگرمی بنا رہا۔ علاقائی اہداف حاصل کرنے کے لیے جنگجو تنظیموں کی پرورش کی گئی۔

اس دوران چار سویلین ادوار بھی دیکھنے میں آئے۔ ہمارے ”بنیادی گناہ“ کا دور 1947-58 ء کا ہے جب ہم نے انڈیا کے برعکس جمہوریت سے کنارہ کشی اختیار کی۔ بھٹو دور میں آئین سازی، اور عوامی فلاح کے نعرے نے امید کا نخل ہرا کردیا، لیکن جلد ہی جمہوری رویہ آمرانہ مزاج میں ڈھل گیا، معیشت کا کباڑا کردیا، بلوچ شورش پسندی کو بھڑکایا، اور آخر کار انتخابی دھاندلی سسکتی ہوئی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ بھٹو کا سویلین دور آمرانہ ادوار کی یاد تازہ کرتا ہے۔ 1990 ء کی دہائی سیاسی میوزیکل چیئرز کی نذر ہو گئی۔ اس کے بینڈ ماسٹرز راولپنڈی میں تھے۔ اس دوران خراب گورننس اور معاشی ترقی کی شرح سست رہی۔

آخر میں 2008-2018 ء کا عشرہ ہے۔ اس نے مشرف دور میں پروان چڑھنے والی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کی۔ عملی طور پر تو انتہا پسندوں کے خلاف فوج نے جنگ کی، لیکن تزویراتی طور پر اسی نے ان کے بیج بوئے تھے۔ ایک مرتبہ اختیار ملنے پر، اس نے خود کو سیاسی طور پر ناگزیر ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا۔ 2008ء کے بعد بھی روز مرہ کی گورننس بہتر نہ ہو سکی، لیکن رواداری کی حامل سیاست نے میڈیا، سول سوسائٹی اور اپوزیشن کو زیادہ آزادی دی۔

اگرچہ مشرف نے ”نئی قیادت“ کا بے بنیاد نعرہ لگایا تھا لیکن یہ نئی قیادت پی ٹی آئی کی صورت ابھری۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے پرامن اور شفاف انتخابی عمل 2013 ء میں دیکھنے میں آیا۔ اس دورمیں انتقال ِ اقتدار، انتخابی اصلاحات اور فاٹا کے انضمام پر ایسی اہم قانون سازی کی گئی جس کا آمر کبھی خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن مقامی حکومتوں کے قیام میں ناکامی اپنی جگہ پر موجود تھی۔

اس دور کا ایک اہم ہدف مختصر مدت کے امریکی روابط سے وجود میں آنے والے سکیورٹی بندوبست کو طویل المدت چینی روابط سے منسلک کرنا تھا۔ معاشی نمو میں اضافہ ہوا۔ لیکن اس پالیسی نے فوری نتائج نہ دیے۔ ملک بھاری قرضے تلے دب گیا، اور معاشی نمو زمین بوس ہوگئی۔ لیکن مجموعی طور پر یہ دور سیاسی اور سکیورٹی استحکام کے حوالے سے دیگر ادوار کی نسبت بہتر رہا۔ چنانچہ اسے ہم اپنی قومی زندگی کا بہترین دور کہہ سکتے ہیں، گرچہ یہ خامیوں سے مبرا نہ تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے جن سیاست دانوں کی پیہم کردار کشی ہوتی ہے، اور جن سیاسی جماعتوں پر کو نااہل سمجھا جاتا ہے، اُنھوں نے بہترین نتائج دیے۔

بدقسمتی سے ہمارا بہترین دور اُن ہاتھوں نے ختم کردیا جنہوں نے ہمیں اب تک بدترین ادوار دیے تھے۔ ماضی سے حاصل ہونے کے سبق کے باوجود ہم ابھی تک اسی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ معاشی ترقی اور سیکورٹی اہداف کے لیے ”سلیکٹڈحکومت“ کا بندوبست کرکے سیاسی استحکام کے تسلسل کی قربانی دی جاسکتی ہے۔ لیکن ہمارے جیسی خستہ حال ریاستوں میں سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر پائیدار سکیورٹی اور معاشی پالیسی نہیں بن سکتی۔ فرد ِواحد کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے، لیکن گورننس اور معیشت کا حال ابترہے۔ ہمارے نظریاتی محافظوں کا یہ تجربہ بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا، لیکن اس سے پہلے ہمارے معاشرے پر گہرے چرکے لگا چکا ہو گا۔

(بشکریہ: دنیا پاکستان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).