اپنا خاکہ کھینچوں یا خاکہ اڑاوؑں


میں بیٹا اور بھائی بھی انہیں دنیاوی وجوہ کے سبب اچھا نہیں رہ پایا کیونکہ آپ اچھے تب ہوتے ہیں جب آپ ان کی مادی ضروریات بڑھ چڑھ کے پوری کریں مگر ایسا نہ کرنے کے باوجود بہن بھائیوں کو مجھ سے جو پیار ہے وہ اسے ترک کرنے سے رہے۔ میں جتنا کر سکا میں نے ضرور مدد کی، مگر بڑھ کے اگر میں بیوی بچوں کی اعانت نہیں کر سکا تو بہن بھائیوں کی کیسے کر سکتا ہوں۔

البتہ میں دوست اچھا ہوں، ایک طرح سے اتنا اچھا بھی نہیں ہوں۔ جیسے اگر مجھے کوئی دوست پکڑنے کو اپنا پہنچہ دے تو میں اس کی کلائی کو دو ہاتھوں سے مضبوطی سے تھام لیتا ہوں۔ اس کی محبت، تعلق، مدد اور تعاون کو میں اس کا فرض تو خیال نہیں کروں گا لیکن اپنا حق ضرور سمجھنے لگ جاتا ہوں۔ البتہ اگر کوئی دوست محض محبت سے کام چلانا چاہے تو اسے بھی بدلے میں محبت دینے سے گریز نہیں کرتا۔ اگر کوئی محبت، مدد، تعاون سب کسی بھی لمحے آ کے چھوڑ دے تب بھی اس سے تعلق اسی شدومد کے ساتھ برقرار رکھتا ہوں۔

میں دوست کے نقائص پر نگاہ نہیں رکھتا البتہ اسے باور کرا دیتا ہوں، بار بار یاد دلاتا ہوں، جیسے یہ کہ یار جھوٹ مت بولا کرو، یار غیبت سے احتراز کرو وغیرہ مگر ان منفی اوصاف کی بنا پر اس سے ترک تعلق چاہے عارضی طور پر ہی، نہیں کرتا۔ ہاں البتہ جس طرح میں خود حسب مراتب کا قائل ہوں، اگر کوئی دوست کم عمر ہو یا ہم عمر یا عمر میں زیادہ بے تکلفی میں حد سے گزر جائے تو میں رنجیدہ ہو کے اس سے ترک تعلق کر لیتا ہوں مگر اس کو بھلاتا نہیں ہوں جیسے میں حسن نثار سے 1981 سے نہیں بولا، اس کی یاوہ گوئی سے بھی شناسا ہوں، یہ بھی میں نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ لفظوں کی جگالی کرتا ہے مگر میں اس کا کالم دیکھتا ضرور ہوں چاہے اچٹتی نگاہ سے سہی۔ جب پاکستان میں اس کی چھوٹی بہن غزالہ سے ملتا ہوں تو حسن کا حال پوچھنا نہیں بھولتا۔

میں روسیوں کی طرح اگرکوئی کچھ دیتا ہے تو لے لو اور اگر کوئی پیٹنا چاہے تو بھاگ جاوؑ کے انداز میں دوستوں کی دی چیز یا مالی مدد سے رسمی طور پر انکار ضرور کرتا ہوں مگر لے لیتا ہوں۔ کسی کے ہاں کوئی چیز لے جانا جیسے مٹھائی، کپڑے وغیرہ مجھے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسا کرتے ہوئے کوئی بھایا، لے آیا تو انکار نہیں کیا مگر خود کبھی کچھ لے کے نہیں گیا، اسی لیے میری ایک تایا زاد نے کہہ ہی دیا تھا کہ ہاتھ لٹکا کے آ جاتا ہے مگر میں نے بڑی بہن کے اس کہے کا برا نہیں منایا تھا، بتا دیا تھا کہ میں ایسا ہوں یعنی کچھ اور طرح کا۔

بچوں کے لیے کھلونا یا کھانے پینے کی کوئی شے شاید ہی میں لے کے آیا ہوں گا، یہ فریضہ نبھانا ماں کے ذمہ ہے۔ باوجود اس کے بچوں نے ہمیشہ ہی مجھ سے پیار کیا۔ میں نے انہیں بتا کے کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں لاتا پھر میں تمہیں کیوں پسند ہوں پوچھا بھی تو بچوں نے کہا اس لیے کہ آپ اچھے ہیں یا کہہ دیا اس لیے کیونکہ آپ مزاحیہ ہیں، وجہ یہ کہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچہ بن جاتا ہوں۔ مائیں بچوں کے ساتھ کم ہی کھیلا کرتی ہیں۔

مجھے بچے اچھے لگتے ہیں مگر ایک آدھ گھنٹہ کے لیے ان کی ہو ہاوؑ پسند کر سکتا ہوں پھر مجھے ان کا شور اور ہنگامہ آرائی بالکل نہیں بھاتا۔ تاحتٰی بچپن میں بھی نہیں بھاتا تھا۔ لاہور میں ماموں کی کوٹھی میں بہت سے بچے کھیلتے تھے، بھاگتے تھے، شور کرتے تھے مگر میں ان کی ان حرکتوں میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتا تھا۔ اب بھی میں ایک عرصہ سے تنہائی میں رہنا پسند کرتا رہا ہوں۔

بہت ضروری ہو تو میں کہیں جا سکتا ہوں ویسے میں گھر میں بندھے جانور ایسا ہوں۔ میں اگر محبوبہ سے ملنے یا دوسری بیوی کی طرف بھی جاتا تھا تب بھی رات کے کسی بھی پہر گھر لوٹ کے آنے کو ترجیح دیتا تھا۔

ہر مرد کی طرح مجھے جنسی تنوع پسند رہا۔ المیہ یہ کہ میں جس کے ساتھ ملوث ہوا اخلاقی طور پر اس کے ساتھ انسانی تعلق محسوس کرنے لگا۔ محض تعیش کی خاطر میں کسی انسان کو پامال یا مالامال نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے پے در پے ان کی بات مان کر انہیں بیویاں بنانا پڑا۔ محبوبہ کے ساتھ وقت بتانا اور بات ہے اور بیوی کی مسلسل لن ترانی سننا اور شکوے سہنا دوسری بات۔ بچے ہو جائیں اور ضروریات بھی پوری کرنے کے آپ لائق نہ ہوں تو یہ تیسری بات۔ اس لیے ہر بیاہ کرکے میں پریشاں بھی ہوا اور پشیماں بھی۔ میں نے اپنے طور پر کسی کو نہیں چھوڑا اگرچہ ان کی بدمزاجی سے کئی بار ایسا کرنے کو جی چاہا بھی۔ اگر انہوں نے چھوڑنے کا تقاضا کیا تو جتنا بن پڑا روکا۔ باگ ہاتھ سے چھوٹ گئی تو بھی دکھی رہا شکر ادا نہیں کیا۔

قصہ مختصر اپنے تو اوصاف بھی کچھ کو نقص لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2