سیکس کہاں کریں؟


مشرق میں بناوٹی تو کیا ہماری فطری آزادی تک کو قید کردیا گیا ہے۔ یہاں شوہر بیوی کے پاس دو منٹ بیٹھ جائے تو شوہر کو رن مرید اور بیوی کو چغل خور کا اعزاز دے دیا جاتا ہے۔ سیکس وقت کا نہیں کیفیت کا محتاج ہے۔ یہ کیفیت آپ پر علی الصبح بھی طاری ہوسکتی ہے، جاب پر جاتے ہوئے بھی طاری ہوسکتی ہے، دوران جاب بھی طاری ہوسکتی ہے، کھانے کھاتے نیز جب آپ پر حاوی ہو۔

شوہر کام سے سیدھا گھر آتے ہی اگر فورا اپنے کمرے کی طرف لپکے تو ماں کا دھیان اسی طرف ہوتا ہے کہ شاید چغلیاں کی جارہی ہیں یا بیوی کی فرمائیشیں سنی جارہی ہیں یا عین ممکن ہے بیٹا اپنی بیوی کے لئے کوئی قیمتی شے لایا ہے، افسوس نالائق بیٹے پر جو مجھ سے زیادہ اپنی بیوی کو عزیز رکھتا ہے۔ اسی کشمکش میں وہ کمرے کی طرف لپک جاتی ہے اور جاہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرسنل سپیس نامی لفظ ہی اکھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اب جہاں آپ اپنی بیوی کو اس کی خوبصورتی پر ایک جملہ نہیں کہہ سکتے وہاں گھر میں جوائینٹ فیملی میں رہتے ہوئے سیکس کرنا ایک ناممکن فعل ہے۔

سیکس ایک پُر لطف عمل ہے جس طرح آپ کھانا کُھل کر کھاتے ہیں جو کہ ایک فطری فعل ہے پھر اچھے برتن میں، اچھی جگہ میں، اچھے زائقے پرکھتے ہوئے ہر لقمہ نوش فرماتے ہیں اسی طرح سیکس بھی ایک فطری فعل ہے جو اپنی خوشی، ہر طرح کی فرسٹریشن دور کرنے اور جسم کی بھوک مٹانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے ماحول کا تال میل بہت ضروری ہے۔ پھر روز روز ایک ہی طرح سے سیکس کرنا بھی بور ہوجاتا ہے جیسے روز ہی آپ گوشت نہیں کھاسکتے۔ اس لئے بیڈ، صوفہ، کچن، باتھ روم، فلور کہیں بھی کرنا چاہیے۔ اب چونکہ جوائنٹ فیملی کا روادار معاشرہ پھر وہی مشرقی ٹیپیکل ساسیں تو گھر پر تو نہ بیوی وہ لُطف دے پاتی ہے اور نہ ہی مرد و عورت شادی کے بعد بھی خوش رہ پاتے ہیں۔

پاکستان میں پارک، سنیما ہال، ریسٹورنٹ میں مرد کا ہاتھ پکڑ کر چلنے والی عورت گشتی کہلائی جاتی ہے کیونکہ کہنے والے اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ ہم ایسا کیوں نہیں کر پارہے یا ہماری بزدلی کے سامنے یہ باہمت فعل کیوں سرزد ہوا۔ ہمارا معاشرہ ہی فرسٹریٹڈ ہے۔ اس بات سے آگاہ سب ہیں لیکن ماننے سے سب انکاری ہیں۔ اب چونکہ مذہب بھی برینڈڈ کپڑوں کی طرح ہے۔ امیر کا مذہب بھی امیر اور لبرل، غریب کا مذہب وہی پھٹا پُرانا جیسے اس کا لباس۔ پھر مشت زنی پر بھی مذہب نے بندش لگارکھی ہے تو کیونکر نہ وہ ایک جینز پہنی اپنے شوہر یا محبوب کا ہاتھ تھامے عورت کو گشتی کہے۔ میرے نزدیک اس سے زیادہ خوبصورت احساس کوئی نہیں کہ آپ اپنی پسندیدہ عورت کا ہاتھ بس، ٹرین، فٹ پاتھ پر چلتے، سفر کرتے، ریستوران میں کھانے کھاتے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہو۔

چکلے کا رُخ بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ چکلے میں مفت کا مال اُڑانے وہی آتے ہیں جو آپ کو چکلے پر جانے سے منع فرمائیں۔ یہاں سے نکل کر سیکس فرسریٹڈ انسان پھر جبر کرنے پر اُتر آتا ہے۔ پھر وہ خوبصورت عورتوں کے منہ پر تیزاب بھی پھینکتا ہے اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل بھی کرتا ہے۔

سیکس کرنے کے لئے آج کل سب سے بہترین جگہ مندر، گرجا اور مدرسے جیسے مقدس مقامات ہیں، جہاں نہ کوئی کیمرہ، نہ عمر کا لحاظ، نہ پولیس ساس اور باپ، نہ کنواری یا کنوارے ہونے کا ثبوت دینا، نہ کوئی نکاح نامہ، نہ کوئی بتانے والا ہوتا ہے۔ یہاں انسان تو کیا خدا کو بھی پرواہ نہیں کہ سیکس جبری ہے یا مرضی سے۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).