میرے بھی صنم خانے۔ ایک مطالعہ


کچھ دیر قبل اردو کا شاہکار ناول ”میرے بھی صنم خانے“ پڑھا اور سوچا کہ اس پر خامہ فرسائی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ناول اپنے اندر کئی عہد سموئے ہوئے ہے۔ ہمارے وہ نقاد جن کا خیال ہے کہ اردو میں بڑا ناول لکھا ہی نہیں گیا ن کے لیے قرۃ العین حیدر کا یہ ناول بطور مثال پیش کرنا چاہیے۔ ناول پڑھنے کے بعد عجیب کیفیت سے گزر رہی ہوں، ایسا لگ رہا ہے کہ ناول میرے حواس پر طاری ہے، اس کے تمام کردار میرے ارد گرد چل پھر رہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اچھا ناول ہمیشہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور قاری چاہ کر بھی اس کے حصار سے نہیں نکل پاتا۔

یہ ناول ہندو یا مسلمان کی کہانی نہیں بلکہ انسانیت کا نوحہ ہے۔ اس انسانیت کا نوحہ جسے تقسیم نے یوں کچل دیا کہ ان کے چیٹھڑے تک نہ ملے۔ اس تقسیم سے صرف مسلمان اور ہندو الگ نہیں ہوا تھا بلکہ ایک انسانیت الگ ہوئی، ایک تہذیب الگ ہوئی اور کئی قومیں تقسیم ہوئیں۔ اس نے انسانیت کی کمر توڑ کر رکھ دی کیونکہ دنیا کی اتنی بڑی ہجرت جس میں تقریبا ایک کروڑلوگوں نے ہجرت کی۔ یہ ہجرت تاریخ کے صفحات کو بھی لہولہان کر گئی۔

ہم آج کہتے ہیں کہ ہندومسلم الگ ہو گیا، دو ملک بن گئے مگر سچ تو یہ ہے کہ تاریخ انسانیت تقسیم ہوئی۔ جو تعصب اور نفرت اس تقسیم سے دونوں قوموں میں پروان چڑھی اس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہ ناول ان لاکھوں بے گھر ہونے والوں کا نوحہ ہے جسے ہم اگست کے مہینے میں یاد کرتے رہ گئے۔ میرا یہ ناول اگست کے مہینے میں پڑھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں تقسیم کو محسوس کرنا چاہتی تھی۔ عبد اللہ حسین کے ”اداس نسلیں“ اور مشکور حسین یاد کی ”آزادی کے چراغ“ پہلے ہی میرے حواسوں پر طاری تھیں۔ اب یہ ناول جو تقسیم کا عظیم ترین نوحہ ہے، مجھ پر طاری ہے۔

پہلی قرات میں یہ ناول مجھے شدید اکتاہٹ کا شکار کرتا رہا لیکن دوسری اور تیسری قرات نے تو کمال کر دیا۔ کتنے نئے دروا کیے جو پہلے میرے دماغ سے محو رہے۔ آج کی نوجوان نسل جو ناول محض رومانوی کہانی سمجھ کر پڑھتی ہے، جو ناول محض انجوائے منٹ سمجھ کر پڑھتی ہے اسے تاریخ پر مبنی ناول کیسے پسند آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ارد گرد کی دوستوں نے رومانوی ناولوں کی ایک طویل فہرست پڑھ رکھی ہے لیکن ایسے ناول جن میں ہماری تاریخ چھپی ہے، وہ چند ایک کے علاوہ کسی نے بھی نہیں پڑھا ہوگا۔

رخشندہ، پی چو، پولو، کرن، ومل اور کرسٹابل جیسے عظیم کرداروں کے گرد گھومتا یہ ناول نہ جانے اپنے اندر کتنے دکھ اور کتنے سانحات سموئے ہوئے ہے جس نے مجھے کئی دن اور کئی راتیں اپنے حصار میں لیے رکھا۔ ناول پڑھنے سے قبل تقسیم کے حوالے سے میرا تقسیم کے بارے میں جو نقطہ نظر تھا اب مکمل طور پر مختلف ہو گیا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ یہ کیسی آزادی تھی جس میں لاکھوں بے گناہ مارے گئے، سینکڑوں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تاراج ہوئیں۔

یہ سب دونوں قوموں کے ساتھ ہوا۔ جب بھی جنگ ہوتی ہے سب مارے جاتے ہیں، کلاشنکوف کبھی مذہب نہیں دیکھتی، بلکہ اس کا مطلب جان لینے تک ہوتا ہے۔ اس تقسیم نے بھی یہی کیا اور یہ ناول انہی موضوعات کے گرد گھومتا ہے۔ یہ ناول اگرچہ کوئی بہت بڑا ناول نہ سہی مگر اردو کے شاہکار ناولوں کی فہرست میں بلاجھجک رکھا جا سکتا ہے۔ اس ناول نے منٹو کا افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ اور احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”پرمیشر سنگھ“ یاد کروا دیا۔

پرمیشر سنگھ بھی تقسیم میں ہونے والے ظلم کا ایک نوحہ ہے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی۔ پرمیشر سنگھ مرتے ہوئے چیخ چیخ کر کہتا رہاکہ میرا قصور تو بتاؤ مگر مارنے والوں نے کچھ نہیں کہا تھا، بس زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا اور اسے لہولہان کر دیا تھا۔ اس ناول کے کردار پی چو اور کرن بھی یونہی دم توڑتے رہ گئے اور اپنے پیچھے ایک بنیادی سوال چھوڑ گئے کہ آخرہمارا قصور کیا تھا۔

قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا بنیادی نوحہ انسان ہوتا ہے۔ انسان کی مٹتی ہوئی تاریخ اور تہذیب۔ انسانی المیوں سے جنم لیتی لاتعداد وہ کہانیاں جو ہم روز مرہ زندگی میں نظر انداز کر دیتے ہیں، عینی آپا ان کا ذکر انتہائی کمال لب و لہجے میں پیش کرتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں محبت اور امن کا آشا کا ذکر شدت سے ملتا ہے اور یقین جانیں اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ امن اور محبت ہی ہے۔ نفرت اور تعصب کی ماری ہوئی قوموں کو محبت اور بھائی چارے کا درس دینا ضروری ہے۔

آج مودی اہنی شدت پسند سوچ سے اس نفرت کو مزید پروان چڑھا رہا ہے جو تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے عوام میں ڈویلپ ہوئی تھی۔ کاش اسے کوئی سمجھائے کہ بڑی قومیں امن اور اخوت سے بنتی ہیں، جنگوں سے نہیں۔ آج ہمیں کیوں لگتا ہے کہ انسان محض بھیڑ بکریاں ہیں، انہیں جیسے مرضی ٹریٹ کیا جائے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں انسان کو انسان سمجھنا ہے اور عینی آپا کے ناول اسی پس منظر کے گرد گھومتے ہیں۔ اس ناول نے میرے اندر انسانیت کی محبت میں مزید اضافہ کیا۔ اس ناول نے مجھے دونوں ملکوں کے عوام سے محبت کا درس دیا۔ اسی ناول سے مجھے احساس ہوا کہ قومیں محبت سے عظیم قومیں بنتی ہیں، نفرت اور تعصب سے نہیں۔

ناول میں رخشندہ کے نام ڈائمنڈ کا بھیجا گیا خط پڑھ کر بے ساختہ خیال آیا کہ جب دو ملک تقسیم ہوتے ہیں تو کیا صرف غریب ہی متاثر ہوتا ہے یا اس سے امیر کو بھی فرق پڑتا ہے۔ رئیس زادوں کی زندگی میں بھی کوئی تکلیف آتی ہے یا محض متوسط طبقہ ہی پستا چلا جاتا ہے۔ ناول کے آخر میں جب کرسٹابل اپنے وطن واپس لوٹنے لگتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بدن کا کوئی حصہ کٹ رہا ہو اور دل سے بس یہی صدا آرہی تھی کہ پیاری کرسٹابل ”ہم شرمندہ ہیں“۔

اور رخشندہ بنام ڈائمنڈ پڑھ کر بھی یہی لگا کہ تقسیم محض اداسی اور قیامتیں ہی کیوں دے گئی۔ میری دادی اکثر کہانی سناتے رو پڑتی تھی، وہ کہا کرتی تھی کہ بیٹا یہ نفرت اور تعصب تو ہم نے تقسیم کے بعد دیکھا ہے، تقسیم سے پہلے تو ہم سب بہن بھائی تھے، کوئی گامے تھا یا پرمارا سنگھ۔ سب ایک تھے، کوئی کسی سے نفرت نہیں کرتا تھا بس محبت اور امن تھا۔ کاش یہ امن آج بھی ہم سیکھ جائیں۔ مگر یہ کاش شاید کاش ہی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).