نواز شریف سے ڈیل: کیا حقیقت اور کیا افسانہ ہے؟


 

اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ذمہ دار یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ایک بھی پیسہ ملنے کا امکان نہیں اور یہی بات درست ہے۔ ایسے مقدمات میں پھنسے جو لوگ ملکی عدالتی نظام پر کھلا عدم اعتماد کرنے کے باوجود وہاں اپنے کیس لڑ رہے ہیں، اعتراف جرم کر کے اپنے ہاتھوں سے اپنے خلاف فیصلہ کیسے لکھ سکتے ہیں۔

این آر او کے شوشے کا بنیادی مقصد مین سٹریم پارٹیوں کی قیادت سے نجات حاصل کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو اتنا گندہ کر دینا ہے کہ خود حامیوں کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ ہر طرح کا دباﺅ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر تاحال اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو رہی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان میں این آر او کے حوالے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ۔یہ سارا معاملہ مقامی ہے، اس لیے مضبوط گارنٹی بھی دستیاب نہیں۔

اطلاعات کے مطابق اپوزیشن شخصیات کو مختلف پیکج آفر کیے جاتے ہیں۔ بعض بظاہر خاصے پرکشش بھی ہیں لیکن کوئی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انسانی نفسیات کے بعض فطری تقاضے ہیں۔ انتقامی کارروائیوں کی زد میں آئے لوگوں کو جب ایسی خبریں ملتی ہیں کہ اگر ان کی پارٹی کا کوئی بڑا این آر او یا ڈیل کر لے تو باقی سب کو ریلیف مل سکتا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہا جارہا ہے کہ (ن) لیگ کے اندر بھی ڈیل کا حامی گروپ خاصا بڑا ہو گیا ہے۔ پارٹی کے اکثر لوگ براہ راست نشانے پر ہیں۔ طاقتور حلقے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف پیغامات بھجوا کر ملک میں ہونے والی مختلف گرفتاریاں، ضمانتیں، رضا کارانہ زبان بندی، پھر گرما گرم بیانات، مخصوص میڈیا ہاﺅسز سے الزامات اور جعلی انکشافات کی بھرمار، سب اسی پالیسی کا حصہ ہیں جو ڈیل کر کے سیاسی مخالفین کو میدان سے مکمل طور پر آﺅٹ کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

کسی کی فہم و فراست کو چیلنج کرنا اچھی بات نہیں۔ ریکارڈ شاہد ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما غیر سیاسی دماغوں سے بھی کہیں آگے جا کر سوچتے ہیں۔ ہم لکھنے والوں کے پاس اطلاعات آجائیں تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر جائزہ لیا جائے۔ ن لیگ کے حلقوں سے خبر ہے کہ تازہ ترین پیشکش کچھ یوں ہے کہ بیماری کو جواز بنا کر نواز شریف کو باہر بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مریم بی بی کی روانگی بھی ممکن بنا دی جائے گی۔ 2020 ءمیں الیکشن کرانے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس طرح شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قدر دلکش آفر کو سن کر ن لیگ کے بڑے بڑے لیڈر ڈیل گروپ کا حصہ بن کر اس کے گن گانے لگے۔

اب اطلاعات ہیں کہ چار روز کی ”شٹل ڈپلومیسی“ کے بعد نواز شریف نے کورا جواب دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کسی ڈیل کا حصہ نہیں بنوں گا۔ جب میں حکومت کررہا تھا مجھے تو اس وقت بھی چلنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ اب کون سی نئی سائنس ایجاد ہو گئی ہے کہ مجھے بیٹی سمیت باہر بھیج کر کچھ عرصے بعد دوبارہ بلانے کا خواب دکھایا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے انکار سے جہاں منصوبہ سازوں کا پلان ادھورا رہ گیا وہیں ان کی اپنی جماعت کے کئی لیڈروں کے ارمانوں پر بھی اوس پڑ گئی۔ اب ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں (ن) لیگ پر اور سختی آئے۔ یہ بات طے ہے کہ طاقت کے حقیقی مراکز کبھی کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ مفادات پر زد پڑتے ہی آنکھیں ایک منٹ میں تبدیل کر لی جاتی ہیں، صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ محمد خان جونیجو وزیراعظم کی حیثیت سے چین کے دورے پر گئے، واپس آئے تو خالی ایم این اے بھی نہیں رہ گئے تھے۔

ملک کے ہر شعبے میں بحران بڑھ رہا ہے۔ مالی مشکلات میں مسلسل اضافے نے عام شہریوں تو کیا اب مالدار افراد کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ اپنے پیٹ پر پڑنے والی لات کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی گرفتاریاں صرف ایک طبقے کے نزدیک کرپشن کے خلاف کارروائی کی علامت ہیں۔ باقی پورے ملک میں ایک ہی بیانیہ تشکیل پارہا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے۔ میڈیا پر ہزار پابندیوں کے باوجود سب کو پتہ ہے کہ کرپشن کے پروپیگنڈے کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے؟ بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین کے اس سفر میں معاشی بحران عوام کی کمر توڑرہا ہے۔ قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ممکن نہیں رہا۔ ٹھیک ٹھیک پیش گوئی ممکن نہیں تاہم تجزیہ یہی ہے کہ اس وقت کسی بھی قسم کی ڈیل یا این آر او ”عصر کے وقت روزہ توڑنے“ کے مترادف ہو گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2