والدین سے جذباتی تعلق کی نفسیات


 کچھ رشتوں سے جذباتی تعلق ہماری بقاء (زندہ رہنے) کے لیے ضروری ہے ان تعلقات میں سب سے بنیادی تعلق والدین اور اس میں بھی ماں کا تعلق ہے۔

جدید تحقیقات کے مطابق ماں اور بچے کا تعلق بچے کے پیدائش کے فوراً بعد سے ہی باقاعدہ شروع ہوجاتا ہے اور بچے کی بقاء کے لیے اس کا ماں سے قریب ہونا بہت ضروری ہے۔ یہاں بھی ہم قدرتی بقاء کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو یہ یک طرفہ ذمہ داری نہیں ہے۔ جیسا کہ عمومی طور پہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اور اولاد کا تعلق صرف والدین کی قربانیوں سے عبارت ہے۔ ایک بات جو ہر بندہ جانتا ہے مگر اسے اسی طرح ماننے سے گریز کرتا ہے وہ یہ کہ اولاد کو دنیا میں لانے اور ان کی پرورش کا فیصلہ والدین کا بالکل ذاتی ہوتا ہے۔

اس کی وجہ اپنے آنگن میں بچے کھیلتے دیکھنا، معاشرے کو دکھانا کہ میری بھی اولاد ہے، بڑھاپے کا سہارا پانا، یا اپنی نسل کی بقاء کی قدرتی خواہش کچھ بھی ہوسکتی ہے، مگر اس فیصلے میں اولاد کی شمولیت بالکل نہیں ہوتی نہ ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود ایک بچہ جب ایک نئی شخصیت کے طور پہ ماں کے رحم میں جگہ بناتا ہے تو اپنی وہی زندہ رہنے کی قدرتی جدوجہد کی دو طرفہ ذمہ داری نبھانا شروع کردیتا ہے۔ جب تک ایک بچہ ماں کے رحم میں ہوتا ہے وہ اس کے کسی بھی عضو کو ہونے والے نقصان کی مرمت کے لیے اپنے جسم سے اسٹیم سیلز بھیجتا ہے۔ تاکہ وہ وجود جس میں وہ نمو پارہا ہے اس کی بقاء یقینی رہے۔

دوسرا پہلو نفسیاتی ہوتا ہے والدین بننے کا نفسیاتی اور جذباتی اثر بہت گہرا ہے نہ صرف ایک جانب یہ احساس ذمہ داری بڑھاتا ہے ساتھ ہی کچھ بہت اہم پالینے کا فخر والدین کی شخصیت کو اعتماد بخشتا ہے۔ معاشرے میں شادی شدہ ہونے کے بعد پروموٹڈ منصب پہ آپ کا پروبیشن پیریڈ (ہر وقت جانچ کا وقت) ختم ہوجاتا ہے اور آپ باقاعدہ معاشرے کی نسبتاً تجربہ کار جماعت کا حصہ سمجھے جانے لگتے ہیں۔

مجازی طور پہ یہ ”سیلف سیٹسفیکشن یا ذات پہ اعتماد“ اولاد کی ذات سے مشروط ہے۔ مگر والدین اولاد کی ذات سے ان کی پیدائش کے بعد سے ہی جو فوائد حاصل کرتے ہیں اس کا اعتراف کبھی نہیں کرتے۔ بلکہ شاید خود انہیں بھی اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ اولاد کو دنیا میں لانا اُس اولاد سے کہیں زیادہ ان کے اپنے ذاتی تشخص کے لیے اہم تھا۔

اب آتے ہیں اس دو طرفہ تعلق کے دوسرے رخ پہ یعنی اولاد کے والدین سے جذباتی تعلق پہ۔ پچھلے مضمون میں بھی ہم نے یہ بات کی تھی کہ ہر انسان بلکہ ہر ذی روح ہر اس عنصر کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے جو اس کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔ جب تک ایک جاندار تکمیل کے مراحل میں داخل نہیں ہوتا تب تک اس کے وجود کی کوشش صرف اس کے والدین کی جدوجہد ہے لیکن ایک دفعہ وہ نطفے سے بار آور بیضہ (فرٹیلائزڈ ایگ) میں تبدیل ہوتا ہے وہ اپنی بقاء کی کوشش شروع کردیتا ہے۔

اور اس کی بقا کے لیے سب سے اہم اپنے والدین سے جڑے رہنا ہے۔ اگر وہ جانور یا پودہ ہے تو اس کا انحصار والدین خاص طور سے ماں پہ صرف تب تک رہے گا جب تک وہ جسمانی طور پہ اپنی حفاظت اور غذا کے بندوبست کے قابل نہیں ہوجاتا۔ انسان کے علاوہ عموماً جانداروں کے معاشرے مادری ہیں جہاں باپ کا کردار صرف اگلی نسل کو دنیا میں لانے تک کے لیے اہم ہے۔ لیکن انسان کو صرف جسمانی ہی نہیں معاشرتی بقاء کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے جتنا ماں کا کردار اہم ہے اتنا ہی باپ کا بھی ہے۔

جہاں ایک طرف ماں اس کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے باپ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ معاشرتی بقاء کے لیے بھی دونوں یکساں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر معاشرے میں عورت اور مرد سے منسلک معاشرتی معیاروں کی بنیاد پہ اولاد والدین سے جڑے بقاء کے معیار منتخب کرتی ہے۔ اگر پدری معاشرے میں عورت کو دبا کے رکھنے والا مرد قابل تعریف ہے تو اولاد باپ کو ایسا ہی دیکھنے کی خواہش کرے گی اور عورت سے دب کے بات کرنے والے باپ پہ شرمندہ ہوگی۔

جبکہ ایک مادری معاشرے میں دب کے رہنے والی ماں اولاد کے لیے باعث شرمندگی ہوگی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مرد اور عورت دونوں قابلِ احترام سمجھے جاتے ہوں وہاں اولاد صنفِ مخالف کا احترام نا کرنے والے باپ یا ماں کے لیے شرمندگی محسوس کریں گے۔ یہ تمام معیار بچہ گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ ایک پدری معاشرے ( جہاں مرد کو بنیادی حیثیت حاصل ہو جیسا کہ پاکستانی معاشرہ) سے تعلق رکھنے والا خاندان اگر اپنے آبائی ماحول سے نکل کر مادری معاشرے (جہاں عورت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ) میں رہنے لگے یا صنفی برابری والے معاشرے کا حصہ بن جائے اور وہاں کے معیار اپنا لے تو اس بات کا بالکل امکان نہیں کہ بچہ وہ معیار دکھائے جو وہ اپنے آبائی ماحول میں چھوڑ آیا ہے۔ ہاں اگر گھر کا ماحول ابھی بھی باقی معاشرے سے الگ ہے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ بچہ بڑے ہونے تک انہی معیاروں کو درست سمجھتا رہے جو گھر میں رائج ہیں۔

اگر اوپر کی بات چیت سے ہمیں تھوڑا بہت اندازہ ہو کہ بچے کس طرح گھر میں رائج رواجوں سے سیکھتے ہیں تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ بالکل اسی طرح بچے والدین سے بنیادی اخلاقیات سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ والدین اگر اولاد کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھیں گے تو اولاد سیکھے گی کہ دوسرا انسان جو آپ کے رحم و کرم پہ ہو اس کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر والدین بچوں کی جذباتی ضروریات کا خیال رکھیں گے تو بچے سیکھیں گے کہ ساتھ رہنے والے ہر انسان کے جذبات کا احترام کرنا ہے۔

اگر ہم یہ نکتہ سمجھ جائیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے کہ آج کل والدین اور اولاد کے درمیان بڑھتے مسائل کا حل کیا ہوگا۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بحیثیت والدین عموماً لوگ بچوں کے ساتھ نہ صرف سختی سے پیش آتے ہیں بلکہ ان کی تذلیل کرتے ہوئے بھی نہیں چوکتے یہ ناصرف اس بات کہ نشاندہی ہے کہ انہوں نے اپنے والدین سے یہ رویہ سیکھا بلکہ یہ اس بات کی پیش گوئی بھی ہے کہ ان کے بڑھاپے میں ناصرف اُن کی اولاد اُن سے ترش رویہ اختیار کرے گی بلکہ اپنی اولاد سے بھی یہی رویہ اختیار کرے گی اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ اولاد کو دوسرے انسان کا احترام صرف اسی صورت میں سکھایا جاسکتا ہے جب اس کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ ایک مجروح عزت نفس کا حامل انسان کبھی دوسروں کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھ سکے گا۔

ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب وہ چاہے برملا اظہار نہ کرے مگر اس بات کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ میرے والدین کن رویوں میں درست تھے اور کن میں غلط۔ بہت سے تکلیف دہ رویوں کا احساس بھی ہوتا ہے مگر سیکھے گئے معاشرتی معیار کے مطابق ہم ان رویوں کو مثبت یا منفی تصور کرتے ہیں۔ کچھ رویئے اتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ تمام معیاروں کے باوجود ہم انہیں مثبت نہیں مان پاتے مگر اس کا کھلم کھلا اظہار ناممکن ہوتا ہے کیوں کہ معاشرہ والدین کو ایک مقدس رتبے پہ فائز کرتا ہے اور مجموعی احترام کی بنیاد پہ کسی اولاد کی طرف سے مخصوص ماں یا باپ کی گئی تربیت میں کوتاہی کی شکایت کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔

نتیجے میں ہمیں یہ رویئے نظر آتے ہیں جہاں اولاد والدین کو دنیا کا بہترین والدین قرار دے رہی ہوتی ہے اور والدین اپنی قربانیوں کے جواب میں اولاد کی نافرمانی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں ساتھ ہی اس بات پہ دلگرفتہ ہوتے ہیں کہ اولاد نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ آپ نے ہمارے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ یاد رہے یہ وہی اولاد تھی جو ”بیسٹ فادراینڈ مدر ان دا ورلڈ“ کا اسٹیٹس بھی لگاتی ہے۔ جس طرح یہ سننا

”آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے، یا جو کیا یہ آپ کا فرض تھا“

والدین کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے اسی طرح

” ہم نے تمہیں پیدا کرکے غلطی کی“

سننا اولاد کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں تقریباً تمام والدین اور ہر اولاد کو عموما یہ سننے کے لیے ملتا رہتا ہے یعنی سب والدین اور اولاد آپس میں ایک دوسرے سے یہ تکلیف دہ بات کہتے رہتے ہیں اور اس بات پہ دلگرفتہ بھی ہوتے ہیں کہ دوسرے نے مجھے یہ کیوں کہا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ ایک وقت آتا ہے جب ہمیں والدین کی غلطیوں یا قربانیوں کا ادراک ہوتا ہے وہی وقت ہوتا ہے جب ہم ماضی میں کی گئی غلطیوں کو اگلی نسل تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم عموما عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جب بیک وقت چھوٹے بچوں اور ضعیف والدین کی ذمہ داری ہم پہ ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہر وہ رویہ ہر وہ بات جس کی تکلیف اب بھی ہے وہ بات اپنی اولاد سے نہیں کہنی۔

جب ہم والدین کے رحم و کرم پہ تھے اور انہوں نے ہماری بقاء کے لیے جو کچھ اچھا کیا وہ ہمیں اپنی اولاد کے لیے کرنا ہے اور جو انہوں نے غلط کیا وہ ہمیں نہیں دہرانا۔ ساتھ ہی اب جب کہ والدین ہمارے رحم و کرم پہ ہیں تو ان کی بقاء کی بنیادی جسمانی نفسیاتی اور معاشرتی ضروریات اسی بقاء و انحصار کے اصول کے تحت ہماری قدرتی ذمہ داری ہے۔ بحیثیت اولاد اس ذمہ داری کو بہتر ادا کرنا ضروری ہے ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی اولاد کو آپ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اتنا سوچنا نا پڑے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اولاد کے سامنے والدین کو عزت دیں گے تو بڑھاپے میں اولاد ہمیں عزت دے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اولاد کو بروقت عزت دیں گے تو وہ بڑھاپے میں معاشرے کو دکھانے کے لیے نہیں بلکہ خود سے ہماری عزت کرے گی۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima