ہمیں معلوم ہے ہم کربلا میں ہیں


تو آج کربلا کے لئے روانگی تھی۔ بغداد سے کربلا، کوفہ اور نجف اشرف کے شہر دراصل میسوپوٹیمیا کے علاقے ہیں۔ دجلہ و فرات سے مستفیذ ہونے اور اِن کی زرخیزی سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے۔

ایک تو جگہ جگہ چیک پوسٹوں کا سیاپا۔ گاڑی رک جاتی۔ پولیس کا پورا جتھا چیکنگ کے جدید ترین آلات کے ساتھ اندر آتا۔ پہلا مرحلہ تو گھور گھور کر دیکھنے کا ہوتا یوں جیسے القاعدہ کے لوگ ہوں۔

صحرا کا نخلستان دیکھنے کا بھی اپنا مزا ہے۔ بلدیہ مصیب کا جب دیدار کرتے تھے کوئی عقب سے حضرت عون کے مزار کی بات کرتا تھا۔

دھوپ کربلا کی گلیوں میں اتری ہوئی تھی۔ ویرانی کا گھمبیر سا تاثر ہر شے پر بکھرا ہوا نظر آیا تھا۔ مکانوں کی خستگی اور کہنگی بھی بڑی نمایاں تھی۔

برقی تاروں کے بے ہنگم پھیلاؤ سے بھی کوفت ہو رہی تھی۔ شجر کاری ضرور تھی مگر کثرت کہیں نہ تھی۔ یہ شہر پوری دنیائے اسلام کے لئے مقدس ترین جس کی زیارت کے لئے آنے والوں کا ایک نہ ختم ہونے والا تانتا۔ اسے تو خوبصورتیوں کا مرقع بنانا چاہیے تھا۔ اس کے ویرانوں کو نخلستانوں میں بدل دینا چاہیے تھا۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال ملک اور زائرین سے بھی لبالب بھرا ہوا۔

ہم ایک طویل بازار سے گزر رہے تھے۔ دو رویہ عمارات سے گھرا ہوا کشادہ سڑک والا بازار جو ٹرن لیتے ہوئے سیدھا مزار مقدس تک جاتا تھا۔ بازار، اس میں بنی دو منزلہ، ایک منزلہ، سہ منزلہ عمارتیں اور گاڑیوں کی کثرت تھوڑی سی خوشی دیتی تھیں کہ ان کا حال احوال بہتر نظر آتا تھا۔

Baghdad Photo-credit-Leon-McCarron

ہوٹل فندق الجنائن قلب روضہ عالی امام میں گھسا ہوا تھا۔ دو چھلانگیں مارو اور مرکزی گیٹ پر پہنچ جاؤ۔ ہوٹل کے مالک آغا یاس علی سے ہیلو ہائے کی۔ پاس بیٹھی اور پوچھا۔

”آغا آپ کیا سوچتے ہیں؟ “

”میری تو دلی تمنا ہے کہ امریکہ یہاں جم کر بیٹھ جائے۔ میرا تو کاروبار ٹھپ ہوا پڑا تھا۔ ایرانی زائرین پر پابندیاں تھیں۔ گرما میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔ اب دیکھو کھوّے سے کھوّا چھلتا ہے۔ مجال ہے جو میرے تین ہوٹلوں میں سے کسی ایک میں چھوٹا موٹا سا کمرہ بھی دستیاب ہو۔ ہاؤس فل۔

”ارے یہ آغاکمبخت تو من و عن میرے مرحوم ابّا جیسا ہے جنہیں آزادی تو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ رہ رہ کر وہ کمبخت مارے گورے یاد آتے رہتے۔

” بڑا امن تھا اُن زمانوں میں۔ ارے اکیلی عورت چاہے بیس تولے سونا پہن کر کلکتے سے پشاور جاتی۔ مجال ہے جو اُسے کوئی ڈر ڈُکر ہوتا۔ میاں جی کا کاروبار کتنا بڑھا ہوا تھا؟ گھر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔ “

کربلا کی شام خوبصورت تھی۔ سنہری کرنیں اگر چہار سو سونا بکھیرتی تھیں تو میرے بلند مرتبت عالی امام کے روضہ مبارک کا گنبد بھی نگاہوں کو خیرہ کرتا تھا۔ روضہ مبارک کے اندر شیشے کی جھلملاہٹوں، روشینوں اور زیبائشی کام کی کوئی انت نہ تھی۔ نقاشی اور مینا کاری میں رنگوں کا امتزاج نگاہوں کو کھینچے لئے جاتا تھا۔

ہم نے بھی عقیدتوں اور محبتوں کو کیسے زرو جواہر میں لپیٹ لیا ہے۔

یہاں آہ وزاریاں تھیں۔ سسکیاں تھیں۔ خاموش آنسووں کے ساتھ چاہتوں اور محبتوں کے نذرانے تھے۔

جالیوں تک میری کہاں رسائی تھی؟ کیسے جگہ بنائی نہیں جانتی۔ کسی انجانے ہاتھ نے جیسے پکڑ کر تھام لیا۔

علی اصغر اور علی اکبر بھی وہیں آرام فرماتے ہیں۔

تو یہاں صدیوں پہلے صحرا تھا۔ جس نے میرے عرب کے راج دلارے کا خون پیا اور سیراب ہوئی اور اب رہتی دنیا تک اِسے ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے کی کہانی سناتے رہنا ہے۔ محبتوں کے نذرانے پیش کئیے۔ مغرب ادا کی اور حضرت عباس کے روضہ مبارک کی طرف چلی۔

روضہ مبارک سے پہلے بڑا وسیع و عریض میدان تھا۔ خوش رنگ قالینوں پر عورتوں، مردوں بچوں کے جمگٹھے موجیں مارتے تھے۔ پیڈسٹل پنکھے چلتے تھے اورایک بھریا میلے کا سا سماں تھاجو طبیعت کو شگفتگی دیتا تھا۔

خواتین کے ایک گروپ کے پاس بیٹھ گئی۔ زبان کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا تھا۔ تاہم پتہ چلا کہ ترکمانی فیملی تھی۔

عراق میں سُنی تقریبا ًتیس فیصد، شیعہ ساٹھ، کرد پانچ سے سات فیصد، ترکمانی 2 سے تین اور بقیہ اقلیتں جن میں عیسائی، یہودی، آرمینئین، یزیدی اور اشوری ہیں۔ ترکمانی لوگ سُنی عقیدے کے حامل زیادہ اربل Arbil اورکرکوک Kirkuk میں رہتے ہیں۔ ترکمانی بولتے ہیں جوٹرکش زبان کی ہی ایک شکل ہے۔

”یہ جو کُرد ہیں ناسچی بات ہے ان کا تو نہ دین، نہ ایمان۔ کبھی کِسی کے پیچھے بھاگتے ہیں کبھی کِسی کے۔ خودمختاری اور آزاد علاقہ کردستان انہیں پھر بھی نہیں ملے گا۔ چاہے اسرائیل کے تلوے چاٹیں، چاہے امریکہ کی مٹھی چاپیاں کریں۔ اور یہ سُنی نوّے فیصد اینٹی امریکن، شیعہ 50 % پچاس فیصدپروامریکی اورپچاس فیصد اینٹی امریکی۔

یہ تو ظالم ہیں ہی۔ اندر خانے جانے ہم سے کن صدیوں کے بدلے لے رہے ہیں۔ مگر یہ نام کے مسلمان، ہمارے ہمسائے، ہمارے ماں جائے حکمران کیسے خود غرض اور اپنے مفادات کے حصاروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اردن کو دیکھیں۔ ان بڑے فریبیوں کا چیلا چانٹا ہمیں مارنے کے لئے اُنکا سامان بھی اپنے راستوں سے بھیجتا تھا اور ہمیں زندہ رکھنے کے لئے اپنے کاروباری طبقے سے خوردونوش اور دیگر اشیاء کی تجارت بھی کروا رہا تھاگویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔

اب اٹھی کہ چل کر حضرت عباس علمدار کو سلام کر آؤں۔ چار آنسوؤں کانذرانہ پیش کر آؤں۔ مرکزی گیٹ پر ہی گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ عقیدت مند آگے بڑھنے کی کوشش میں ایک دوسرے کا ملیدہ کرنے میں دل و جان سے مصروف تھے۔ بس یوں لگا جیسے ایک قدم آگے بڑھا تو حُسن کی پریوں اور جٹی مٹیاروں کے پاؤں میں قیمہ بن جاؤں گی۔

”نہ بھئی نہ۔ واپس پلٹی تھی۔ رات گہری ہوگی تو دیکھوں گی۔ “

ہوٹل کے ریسپشن پر کافی لوگ تھے۔ سوچا ذرا بات تو کروں۔ جنگ کے حوالے سے پوچھا۔

”جنگ بڑھکوں سے نہیں جیتی جاتی۔ دشمن بھی وہ جس کی جنگی ٹیکنالوجی کا زمانہ معترف۔ اس زون کا انچارج صدام کا بیٹا قصے حسین تھا۔ لفٹیننٹ جنرل رعد علی ہمدانی کربلا ریجن کو کمانڈ کر رہا تھا۔ دونوں میں ٹھن گئی تھی۔ قصے حسین یہاں سے فوجیں شمال کی جانب بجھوانا چاہتا تھا جبکہ ہمدانی کے خیال میں ایسا کرنا غلطی تھی۔ امریکی فوجیوں نے کشتیوں میں فرات کو عبورکیا اور ہمارے سروں پر آموجود ہوئے۔ “

”آپ کی ہمدردیاں کن کے ساتھ تھیں؟ “ میں نے پوچھا تھا۔

”پکی پکی حملہ آوروں کے ساتھ۔ “

مجمع میں سے اکثریت کی آوازیں تھیں۔ سچی بات ہے ایسی صاف گوئی پر ہنسی چھوٹ گئی۔

رات گیارہ بجے حاضری کے لئے باہر آئی تو نظارے حرم کعبہ جیسے ہی تھے۔ برقی روشنیوں کی تندی و تیزی ایسی بلا کی کہ رات پر دن کا گمان گزرے۔ عشاق کے پُرے۔ دکانوں پر خریداریاں۔ آپ عالی مقام امام حسین کے بھائی اور علم بردار کربلا میں صرف سقہ گیری کرنے پر مامور تھے۔ فرات سے کن مصیبتوں اور جتنوں سے پانی لائے مگر آپ عالی وقار کے خیمے تک پہنچ ہی نہ پائے اور شہادت نوش فرما لی۔

صبح اپنے آپ کو حسب معمول عراقی عورت کے قالب میں ڈھالا اور پرانا شہر دیکھنے نکلی۔

چارپانچ فٹ چوڑی گلیوں میں چلتے اورانہی گلیوں میں کہیں کہیں بنی ہٹیاں (دکانیں ) جن کی خستگی کو دیکھتے ہوئے میرا جی دھپ سے وہاں بیٹھ جانے اور بین ڈالنے کوچاہتا تھا۔

کیا اُس نے کبھی اِن گلی کوچوں کو نہیں دیکھا تھا؟ وہ جس کے محل کی وسعتوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ دنیا کا دوسرا بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک اور غربت کی پسماندگی اِس درجہ پہنچی ہوئی۔ اِن میں چلتی، کہیں کھلے دروازوں سے تنگ و تاریک ڈیوڑھیوں میں جھانکتی، کہیں دروازوں پر ٹنگے ملگجے پھٹے پردوں پر نظریں ڈالتی، خوبصورت چہروں والے بچوں کو چلتے پھرتے دیکھتی چند گھروں میں گھسی بھی۔ وہی غربت کے دہلانے والے منظر۔ ایک کمرہ، کہیں صحن کے نام پر بہتان، ہوا اور روشنی کی گزرگاہ سے محروم۔ ان میں بسنے والی عورتیں جن کے پیلے پھٹک مدقوق چہروں کے نیچے غالباً خون کی کوئی رگ ورید نہیں تھی۔ زبان کا مسئلہ ہر جگہ آڑے آنے کے باوجود کچھ بھی تو سمجھنا مشکل نہ تھا۔ چیزیں تو عیاں تھیں۔

”پروردگار اِس مسکین و یتیم ملت اسلامیہ کو کب کوئی دیدہ ور نصیب ہو گا؟ کب اِن دروازوں پر علم کی روشنی دستک دے گی اور کب گلیوں میں پھرتے ان مفلوک الحال بچوں میں ویسی علم دوست شخصیتیں پیدا ہو ں گی جنہوں نے اس ناکارہ سی قوم کو ایک شاندار ماضی ورثے میں دے کر دوبارہ ان کے ہاں جنم لینے سے منہ پھیر لیا ہے۔ “

تین گھنٹے کی خجل خواری کے بعد جب واپس آئی۔

ہاے آگ دھوئیں اور جلتی گاڑیوں کے شعلوں میں بعقوبہ میں بم پھٹنے کی خبر تھی۔ ہلاکتوں کے سین تھے۔ کٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیر تھے۔ آہیں اور بین تھے۔ زار زار بہتے آنسو تھے اور دماغ میں کشور ناہید تھی۔

تمہیں معلوم ہے تم کربلا میں ہو

ہمیں معلو م ہے ہم کربلا میں ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).