مقبوضہ کشمیر: ریاستی دہشت گردی کے تیس دن


گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن کے تیس روز مکمل ہوگئے۔ اس دوران دنیا بھر میں کشمیریوں نے اس جابرانہ اور انسانیت سوز فسطائی ہتھکنڈے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے اور دنیا کے لیڈروں کی توجہ اس انسانی المیہ کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔

بھارتی حکومت نے کشمیر کی زمین ہتھیانے اور وہاں کے باشندوں کی مرضی کے بغیر کشمیر پر تسلط مسلط کرنے کے لئے نہ صرف خصوصی مراعات کا خاتمہ کیا ہے، ایک قانون کے ذریعے کشمیر کو دو انتظامی اکائیوں میں بانٹا گیا ہے بلکہ ایک ماہ سے وادی کشمیر میں آباد ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگوں کا دنیا کے علاوہ اپنے عزیزوں اور اہل خانہ سے رابطہ بھی منقطع کیا ہؤا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلہ میں آواز بلند کرنے اور سفارتی لحاظ سے دنیا کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ نئی دہلی کی حکومت کو کشمیر میں جاری ظالمانہ لاک ڈاؤن ختم کرنے پر آمادہ کرے۔ تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آسکی ہے۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران جی۔ 7 سربراہی اجلاس کے موقع پر امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ تاہم اس بات چیت کا کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہؤا۔ ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہہ کر بات سمیٹ دی کہ ’مودی نے بتایا ہے کہ کشمیر میں حالات حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘۔ بھارتی حکومت یہی سمجھتی ہے کہ حالات اس کے کنٹرول میں ہیں اور یہ کہ کشمیر میں امن ہے۔ لیکن جب کسی علاقے میں آباد لوگوں کو مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے اپنے گھروں میں یوں بند کردیا جائے کہ وہ ایک دوسرے سے رابطہ کرنے اور بنیادی ضروریات زندگی حاصل کرنے سے بھی محروم کردیے جائیں۔ جب مریضوں کو علاج اور طالب علموں کو اسکول جانے کا موقع نہ مل رہا ہو۔ جب حکومت کے پاس معمولی اختلافی بات کہنے والے کو فوری طور سے قید کرنے یا اس کی کردار کشی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو اسے حالات پر کنٹرول نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ کسی لیڈر کا جھوٹا گمان ہو تا ہے کہ طاقت کے زور پر کسی خطے کے لوگوں کی آواز کو بند رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہوتا۔

مقبوضہ کشمیر سے ہر قسم کی معلومات کی ترسیل پر پابندی ہے۔ صحافیوں کو وہاں جانے اور حالات کا مشاہدہ کرنے کا موقع دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بند ہیں اور کشمیری شہری ایک دوسرے سے رابطہ کرنے اور اپنی خیریت کی اطلاع دینے سے قاصر ہیں۔ ہزاروں کشمیری طالب علم یا روزگار کے سلسلہ میں بھارت کے متعدد شہروں میں مقیم کشمیری مقبوضہ وادی میں سیکورٹی کے حصار میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے بات کرنے اور ان کا حال جاننے کے لئے بے چین ہیں لیکن انہیں ایسا موقع فراہم کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح وسائل جمع کرکے ہوائی جہاز کے ذریعے کھانے پینے کی کچھ اشیا لے کر کشمیر پہنچتے ہیں تو انہیں اپنے گھروں تک جانے کی سہولت میسر نہیں آتی کیوں کہ وہاں کسی قسم کی کوئی ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہے۔

حکومت کے خوف کا یہ عالم ہے کہ چند روز پہلے جب راہول گاندھی کی قیادت میں کانگرس کے ارکان پارلیمنٹ کا ایک وفد کشمیر کے حالات جاننے کے لئے وہاں پہنچا تو انہیں ہوئی اڈے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اگلی ہی فلائٹ سے نئی دہلی واپس روانہ کردیا گیا۔ اس کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کے جیالوں کے ذریعے راہول اور دیگر لیڈروں کی کردار کشی کی بھرپور کوشش کی گئی اور انہیں ملک و قوم کا دشمن بتایا گیا۔ حالانکہ اگر نریندر مودی کے بقول ماضی کی غلطی کو درست کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور قومی یک جہتی کا منصوبہ پورا کرلیا گیا ہے تو پھر وہاں کے لوگوں کو گھروں میں قید کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے۔ آخر حکومت کیوں میڈیا، عالمی مبصرین اور سیاسی لیڈروں کو سری نگر اور دیگر علاقوں میں جا کر لوگوں سے ملنے اور بھارت کے ساتھ ’انضمام کا جشن ‘ مناتے کشمیریوں کی رائے جاننے اور ان کی ’خوشی‘ میں شریک ہونے کا موقع نہیں دیتی؟

حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے ایک ڈرامائی اقدام کر تو لیا ہے لیکن اسے نبھانے کے لئے نہ اس کے پاس سیاسی صلاحیت ہے اور نہ ہی اپنے عاقبت نااندیشانہ فیصلوں اور اقدمات کا کوئی جواز موجود ہے۔ لے دے کے فوج اور سیکورٹی فورسز کی صورت میں طاقت پر انحصار کیا جارہا ہے جو کرفیو نافذ کرکے، مواصلات کے تمام ذرائع پر پابندی عائد لگا کر اور اختلاف کرنے یا اس صورت حال پر انگلی اٹھانے والوں کو حراست میں لے کر نئی دہلی کے بزرجمہروں کو ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ دے رہے ہیں لیکن حالات کی سنگینی سے سب ہی آگاہ ہیں۔ جانتے ہیں جس روز پابندیاں اٹھائی گئیں اور لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے دیاگیا، احتجاج اور غم و غصہ کا ایسا طوفان اٹھے گا جسے بھارتی حکومت کسی بھی طاقت کے ساتھ روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ تب ہی مودی کے اس دعویٰ کا پول کھلے گا کہ حالات حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔

موجودہ صورت حال کی سنگینی کی ایک مثال گزشتہ روز ہی سری نگر کے میئر جنید عظیم متو کی نئی دہلی سے واپسی پر گرفتاری کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ متو میڈیکل چیک اپ کے لئے نئی دہلی گئے تھے جہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے آئین کی شق 370 اور 35 اے کو ختم کرنے اور کشمیریوں کو خصوصی مراعات سے محروم کرنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کشمیریوں کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے کیوں کہ یہ ان کی شناخت کا معاملہ ہے۔ کشمیر میں ہمیشہ ہی تشدد کی صورت حال رہی ہے لیکن اس کو عذر بنا کر کشمیریوں کے بنیادی حقوق مسخ کرنے کا اقدام انہیں تنہا کرنے کا سبب بن رہا ہے‘۔ این ڈی ٹی وی کو دیے گئے اس انٹرویو کی پاداش میں انہیں سری نگر پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ بھارتی حکومت کے کنٹرول کی کہانی اتنی ہی بودی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

اس کے باوجود بعض کشمیری صحافی جان پر کھیل کر کچھ خبریں باہر کی دنیا کو فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق وادی کے باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے بڑے شہروں اور قصبوں کو مسلسل اپنے حصار میں لیا ہؤا ہے۔ اعلان کی حد تک اسکول کھولے گئے ہیں لیکن وہ بدستور ویرانے کا منظر پیش کررہے ہیں۔ چھوٹے علاقوں میں نقل و حرکت کی محدود سہولت دی گئی ہے لیکن فون و انٹر نیٹ کی سروس بدستور بند ہے۔ یعنی لوگ ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود گزشتہ چار ہفتوں کے دوران متعدد مواقع پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے آنسو گیس اور پیلیٹ فائر کا استعمال کیا ہے۔ متعدد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ لگتا ہے بھارتی حکومت کشمیر کے ہر نوجوان کو گرفتار کرکے وادی میں ’امن ‘ بحال کرنے کا دعویٰ سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کے دعوؤں کے برعکس دنیا بھر میں بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی پر مکمل سکوت ہے۔ سلامتی کونسل کے رکن ملکوں نے اس معاملہ پر مشاورتی اجلاس ضرور منعقد کیا لیکن کوئی بیان جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ سامنے آنے والی آوازیں انفرادی اور اخباری رپورٹوں و تبصروں تک محدود ہیں۔ یا دنیا کے مختلف ملکوں میں آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں نے احتجاج کیا ہے اور کشمیر میں جاری پابندیاں ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ اسلام آباد آئے ہیں۔ وہ وزیر اعظم، آرمی چیف اور وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اس دورہ کا مقصد کشمیر کی صورت حال پر مشاورت کرنا ہے۔ حالانکہ کشمیریوں کے ساتھ بھارتی ریاست جو متشددانہ اور جابرانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے، اس کے دوران پاکستان سے مشاورت کی بجائے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور متحد عرب امارات یا دوسرے ملکوں کے لیڈر اگر دہلی جا کر یا ٹیلی فون کے ذریعے کشمیری عوام کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروا سکیں تو شاید بھارتی حکومت عقل کے ناخن لے۔

کشمیر پر طاری کی گئی جبر کی یہ طویل رات بالآخر اپنے انجام کو پہنچے گی۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اختیار کئے گئے ریاستی جبر اور دھونس کے ہتھکنڈے نفرت اور بے چینی میں اضافہ کریں گے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے آج ایک پریس کانفرنس میں بجا طور سے اس صورت حال کو پورے خطے کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’بھارت کشمیر میں نفرت کاشت کرکے جنگ کے حالات پیدا کررہا ہے‘۔

 بھارت کو جلد یا بدیر اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ وہ نہ تو کشمیری عوام پر مسلط کی گئی پابندیاں ہمیشہ جاری رکھ سکتا ہے اور نہ ہی جبر اور جعلی قانون سازی کے ذریعے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنا سکتا ہے۔ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ بالآخر وہاں کے لوگوں کو ہی کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali