خلائی چور زمینی عدالت


تمام مخلوقات میں اشرف حضرت انسان کی حرکتیں بھی تمام مخلوقات کے مقابلے میں اشرف ہیں۔ آج تک زمین پر چوری کے واقعات تو سنے ہوں گے، اس کرہ ارض کا کون سا خطہ اس فعل قبیح سے مستثنٰی ہے لیکن صاحبو حیران کن بات یہ ہے کہ اب حضرتِ انسان کی کارفرمائی خلا تک جاپہنچی ہے جی ہاں خلا میں چوری کی پہلی واردات، اب نجانے زمین کی عدالتوں کے انصاف کی پہنچ خلاتک ہے یا نہیں لیکن واردات ہوچکی اور پکڑی بھی جاچکی ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ خلائی تحقیق کا امریکی ادارہ ”ناسا“ تاریخ کے اس پہلے جرم کی تحقیقات کررہا ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں کہ خلا نورد نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے اپنی ازدواجی ساتھی کی معلومات چوری کر کے ان کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کیں۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا جرم ہے جس کا ارتکاب زمین سے باہر کسی مقام پر ہوا ہے۔ خلانورد این میک لین نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنی ساتھی سمر وورڈن کے بینک اکاؤنٹس کو ہیک کیا تاہم انھوں نے یہ معلومات حاصل کر کے کوئی غلط کام نہیں کیا، اس واقعے کے حوالے سے سمر وورڈن نے شکایت فیڈرل ٹریڈ کمیشن میں جمع کرادی ہے اب چور چوری سے جائے یا ہیرا پھیری سے واردات تو ہوچکی، حضرت انسان کی کارفرمائی خلا تک پہنچ گئی۔

ایک ہم ہیں یہاں بڑے برے چور سلاخوں کے پیچھے ہیں، جرم ثابت ہوکر نہیں دے رہا، پسندیدہ چوروں کو معافی مل رہی ہے، ایک بے چارہ ذہنی مریض چور پکڑا گیا، اسے تو ہمارے پیٹی بھائیوں نے مار مار کر جہنم واصل کر دیا۔ یہاں یہی تھوڑا بہت انصاف ہے لینا ہے تو تو ورنہ اور بھی غم ہیں زمانے میں۔ عوام چور کو پکڑ کر مارے تو قانون ہاتھ میں لیتے ہیں جاہل لوگ لیکن یہی قانون جب قانون نافذ کرنے والے توڑیں تو انھیں بچانے کے لیے پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے، ثبوت مٹا دیے جاتے ہیں، بیانات داغے جاتے ہیں۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

یہاں تو دستانوں کے ساتھ نقابیں بھی پہنی ہوئی ہیں۔ معاشرے کے عدم استحکام نے آدمی کو اتنا حساس کردیا ہے کہ وہ اپنے سائے سے بھی بچ کر نکلتا ہے کہیں اس کا سایہ ہی اس کے ساتھ کوئی واردات نہ کردے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن نہ جانے جرم کرنے والے پکڑ میں آتے بھی ہیں یا یونہی لارے لپے دیتے رہیں گے، سانحۂ ساہیوال معصوم بچوں کی نگاہوں کی وحشت زدہ حیرانی سوال کرتی رہے گی کہ ہمارا کیا قصور تھا جب تک انصاف نہیں مل جاتا۔

مہنگائی کے مارے دو وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں جو روکھی سوکھی مل جاتی ہے گزر کرتے ہیں جن سے صبر نہیں ہوتا وہ چوری کرتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو وہی حال ہوتا ہے جو صلاح الدین کا ہوا۔ حکمرانوں کی آنکھیں اور کان بند ہیں انھیں کیا پڑی غریب کی بپتا سنیں، ریاستِ مدینہ کا لفظ منہ سے ادا کرتے وقت ذرا لحاظ نہیں آتا، خدا کا خوف کرو کھانے کو نہیں دے سکتے تو جان سے تو نہ مارو۔

چوری تو ہر ایک ہر جگہ کررہا ہے کہیں اپنے کام سے غفلت، کہیں ملاوٹ کرکے، کہیں ایک دوسرے کا حق مار کر کہیں اپنی حدود سے تجاوز کرکے لیکن یہ سب چوریاں نظر نہیں آتیں وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگے، ان چوروں کو کون سزا دے گا۔ ہم کاغذ سیاہ کرتے رہیں گے لیکن اثر کسی پر نہیں ہوگا، جب تک قانون کا نفاذ سختی سے نہیں ہوگا اور سزا کا تصور واضح نہیں ہوگاس کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا چاہے جتنی سرتوڑ کوشش کرلیں۔ جرم کسی سے بھی سرزد ہو جرم ہے جس وقت جائز طور پر سزائیں دینے لگیں گے اس وقت ہی معاشرے میں سدھار پیدا ہوگا۔ خلا میں چوری کی تو سزا بھی مل جائے گی لیکن ہمارے ملک میں زمینی چور دندناتے پھر رہے ہیں انھیں کون پکڑے گا، خدا ہمیں محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).