غزوہ ہند کے خواب کی باز گشت


1958 میں جب ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو لوگوں نے شاہ ولی اللہ کی اُن پیش گوئیوں کو یاد کیا جن میں غزوہ ہند کا ذکر ہے۔ دِلّی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے فسانے دوہرائے گئے۔ سیاسی فریب کار خوب جانتے ہیں کہ اس طرح کے جذباتی خواب دُکھی عوام کے لیے سُکھ کی سانس ہوتے ہیں، بالکل اُسی طرح جیسے ہمارا ایٹمی قوت ہونا ہماری نظریاتی بقا اور ہمارے قومی تحفظ کا دلاسہ ہے۔

ہم نے دو قومی نظریہ بھی اپنے ملی اور قومی تشخص کی بقا کے لیے ایجاد کیا تھا۔ دو قومی نظریے کے مقابلے میں ایک موقف خاکسار تحریک کا تھا۔ علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کا کہنا تھا کہ چونکہ 1857 میں دہلی کے حکمران مغل مسلمان تھے، اور اب جبکہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر واپس جا رہا ہے تو حکومت مسلمانوں کے حوالے کرے اور اپنی راہ لے۔ لیکن اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ جیت گیا اور ہندوستان تقسم ہو گیا۔

اب اس تقسیم کو بہتر برس ہو گئے ہیں لیکن کشمیر جس کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا وہ تا دمِ تحریر پنجہ ہنود میں ہے اور اب مودی کی حکومت میں وہ شہ رگ کاٹنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے طرح طرح کے داؤ آزمائے جا رہے ہیں۔ اس شہ رگ کے حتمی فیصلے کے لیے اقوامِ متحدہ میں استصواب رائے کی جو قرار داد وضع ہوئی تھی، ہم اُس کو عملی جامہ پہنانے میں کئی دہائیوں میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ ہم نالائق اور غیرذمہ دار ہیں اور اب ہم ایک ایسی صورتِ حال سے دو چار ہیں جو ہمارے وجود کے لیے فنا اور بقا کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

ایسے میں ہمارے کچھ میڈیا جرنیل پھر سے لوگوں کو غزوہ ہند کے خواب دکھا رہے ہیں، اور پورے ہندوستان کو اپنے زیرِنگیں لانے کے افسانے دوہرا رہے ہیں۔ لیکن جیسے کو تیسا۔ دوسری طرف ہندوتوا کے سینک ہیں جو انڈس ویلی کو واپس لے کر مشرف بہ ہندومت کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور اُس کے ٹریلر ہر روز ہندوستان کے گلی کوچوں میں دیکھنے میں آتے ہیں جہاں نہتے مسلمانوں کو راشٹریہ سیوک سنگ کے شوہدے اور غُنڈے گھیر کر اُن سے جبراً رام جی کی جے بلواتے ہیں اور اُن کو بُری طرح سے زد و کوب بھی کرتے ہیں مگر ہم اُس پر احتجاج کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔

 یہ بھارت کے گلی کوچوں کا وہ منظر نامہ ہے جو مسلسل دیکھنے میں آتا ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل رہتا ہے، جس پر ہم صرف موہوم سا زبانی احتجاج تو کرتے ہیں لیکن ہمارے محکمہ خارجہ کے پاس اِن بے رحمانہ واقعات کو رکوانے کا کوئی موثر طریقِ کار نہیں ہے جس سے بھارت میں ہونے والے ان مظالم کو روکا جا سکے۔ ایسے میں شاہ ولی اللہ کی پیش گوئیوں، غزوہ ہند کے فسانوں اور میڈیا میں ان کی پیش گوئیوں کا اعادہ تذکرہ بہت بچگانہ لگتا ہے مگر ہمارے بہت سے میڈیا دانشور بشمول ڈاکٹر شاہد مسعود، اوریا مقبول جان اور زید حامد مسلسل اسی بیانیے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ وقوع پذیر ہوگا بھی یا نہیں۔

اگر ہو گا تو کیسے ہوگا۔ اور وہ بھی ایسے میں جب ہماری داخلی معاشرتی صورتِ حال بے حد نحیف اور کمزور ہے اور ہمارے اندر کا اہرمن بے حد طاقت ور ہے۔ ہمارے معاشرے میں کم سن اور نابالغ بچّے غیر محفوظ ہیں۔ معصوم اور کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کے بعد قتل کے واقعات ہمارے ہاں وبائی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ مختلف شہروں میں ایڈز کے ”ذخائر“ دریافت ہو رہے ہیں جن میں ہر عمر کے لوگ اس بیماری کی زد میں پائے گئے ہیں، معاشرتی بے راہروی، کرپشن، رشوت خوری، دوسروں کا حق غصب کرنا، زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا، جعلی دستاویزات بنانا، قانون کو اپنا موبائل سمجھنا اور اسے من مرضی سے استعمال کرنا، اقربا پروری کے ذریعے اندھوں کی طرح ریوڑیاں بانٹنا اور اپنوں کو ہی دینا وہ منفی رویے ہیں جنہوں نے پاکستانی معاشرت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔

 قومی معیشت کی عمارت جو کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف کے ستونوں پر کھڑی ہے، اندر سے بہت کمزور ہے اور وہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کو بنیادی ضرورتوں کی ضمانت بھی نہیں دے سکتی۔ لوگ مصنوعی مہنگائی کی چھری سے ذبح کیے جا رہے ہیں۔ غیر دستاویزی معیشت ملک و قوم کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔ جتنی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، شاپنگ مال، مارکیٹیں اور شو بز کی رنگیناں پاکستان میں دیکھنے میں آتی ہیں وہ یہ کہتی ہیں کہ پاکستان کوئی غریب ملک نہیں مگر اس معیشت کو کسی نظم کا پابند بنا کر اسے ملکی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا ہُنر ہمیں نہیں آیا۔

اس ملک کے چند اداروں اور چند خاندانوں نے پوری قوم کو اپنی کوتاہ نظری اور لالچ کے پنجرے میں قید کر رکھا ہے۔ اخلاقیات کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اور ہم میں اتنی ہمت اور صلاحیت نہیں کہ ہم داخلی صورتِ حال کو بہتر بنا کر ملک میں قانون کی حکمرانی کا بول بالا کر سکیں اور ہمارے مذہبی ادارے یہ دعویٰ کر سکیں کہ ہاں، ہم نے اس قوم کو اسلام کی دولت سے عملاً مالا مال کردیا ہے، اب ہماری قوم پوری صادق اور امین بن چکی ہے لیکن نہیں، ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دوسروں کو پامال کرنے کے رویے بے حد عام ہیں۔

ایسے میں غزوہ ہند کا خواب ایک مضحکہ لگتا ہے بالکل ایک نفسیاتی الجھن کی طرح۔ مگر کچھ لوگ ہیں جو غزوہ ہند کی باتیں کر رہے ہیں اور شاہ ولی اللہ کی پیش گوئیوں کی تشریح اور نت نئی توجیہات پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ اُن پیش گوئیوں کو سمجھنے کی نہ تو کوالیفکیشن کے حامل ہیں اور نہ ہی اِن علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔ ان لوگوں پر ہند پر غلبے کا سیاسی خواب آسیب بن کر طاری ہے جس کے جواب میں بھارت کا ہندو بھی اسی نوعیت کے آسیب میں مبتلا ہے اور انڈس ویلی کو دوبارہ ہندو ریاست میں شامل کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کا ٹریلر بھارت کے گلی کوچوں میں روز دیکھنے میں آتا ہے کہ نہتے اور کمزور مسلمانوں کو پکڑ کر اُن سے جے رام جی کی، کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔

 اور اس برِصغیر کا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے مذاہب کی کند چھریوں سے ذبح کرنے میں مصروف ہیں اور ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسے کیسے کانٹے بو رہے ہیں۔ یہ ساری زمین ایک ہی خُدا کی ہے۔ یہ ساری مخلوق خُدا کا کُنبہ ہے لیکن ہم نے سیاست کے نام پر ہمیشہ محبت کے بجائے دشمنی کے بیج بوئے ہیں اور امن کی جگہ جنگوں اور نفرتوں کی فصلیں اُگائی ہیں جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم کوتاہ بیں لوگ ہیں جو اپنی نسلوں کے دشمن ہے جب کہ ہمیں اس ملک میں امن کی ضروت ہے، اور اتنا وافر امن جسے ہم پورے برِصغیر کو برامد کر سکیں کیونکہ ہماری بقا اسی امن اور محبت میں ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar