دو بوڑھوں کی تصویر


ایک تصویر میری آنکھوں کے سامنے آئے جا رہی ہے۔

آنکھوں کے راستے سے جیسے ذہن میں چپک گئی ہے۔ میں اس کو بار بار جھٹکتا ہوں، ایک آدھ لمحے کے لیے وہ دور ہو جاتی ہے مگر پھر واپس چلی آتی ہے۔ آنکھوں میں جم کر رہ گئی ہے۔ جیسے خون جم جاتا ہے۔

تصویر بہت واضح ہے۔ یوں اس میں کوئی ایسی خاص بات بھی نہیں ہے۔ دو بوڑھے ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے معانقہ کررہے ہیں۔ خاص بات ان کی مسکراہٹ ہے، خوشی جو ان کے چہروں سے پھوٹی پڑ رہی ہے، دوست سے ملاقات کی خوشی۔

ہٹائے نہیں ہٹ رہی ہے یہ تصویر۔ یہ بھی نہیں کہ میں خالی الذہن ہو کر بے کار بیٹھا ہوں اور دن سپنے دیکھنے کی فرصت ہے۔ میری پوری توّجہ ٹی وی اسکرین پر ہے جو گلا پھاڑ کر چیخ رہا ہے۔ گرج دار لہجوں میں زور دار الفاظ بیان کے بعد بیان میں گونج رہے ہیں۔۔۔ مسلسل گولہ باری۔ فائرنگ کا تبادلہ۔ لائن آف کنٹرول۔ خلاف ورزی۔ سرجیکل اسٹرائک۔ ہونے کو ابھی کچھ نہیں ہوا، جو ہونا ہے وہ اب ہو گا۔ اس سے پہلے ہم دشمن کے دانت کھٹے کر دیں گے۔ منھ توڑ جواب دیں گے۔ مسلح افواج چوکس ہیں۔ پوری قوم تیار ہے۔۔۔ بس طبل جنگ بجنے کی دیر ہے۔

جیسے طوفان نوحؑ ایک بڑھیا کے تندور سے پھوٹا تھا، اسی طرح اس طبل جنگ پر تھاپ ٹی وی اسکرین سے پڑنا شروع ہوگی، اسی ٹی وی سے جس نے میرا سارا کمرا سر پر اٹھایا ہوا ہے۔

پھر وہی تصویر نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ دونوں بوڑھے ہنس رہے ہیں۔

ان سے آنکھ چُرا کر سوشل میڈیا کی طرف نظر دوڑاتا ہوں۔ شور وہاں سے بھی بہت ہے۔ طبل جنگ نہیں، خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ پورا امکان ہے کہ یہ صورِ اسرافیل میں تبدیل ہو جائے گی۔ جی کڑا کر کے وہ مضمون پڑھنا شروع کر دیتا ہوں جو مسعود اشعر نے فیس بک پر پوسٹ کیا ہے۔

اگر ہندوستان، پاکستان نے سو کے لگ بھگ نیوکلر وار ہیڈز ڈی ٹوینٹ کر لیے، جو ان کی مجموعی جوہری طاقت کا محض نصف ہیں اور جن میں سے ہر ایک ۱۵کیلو ٹن وزنی ہیروشیما والے بم کے مساوی تو لگ بھگ اکیس ملین افراد براہ راست مارے جائیں گے، دنیا کے گرد اوزون کی حفاظتی جھلّی بھی آدھی رہ جائے گی اور ’’نیوکلیائی موسم سرما‘‘ پوری دنیا میں بارشوں کے موسم اور کھیتی باڑی تباہ ہو جائے گی۔

تو کیا ہوا، سو ملین ہندوستانی اگر مارے گئے تو جو باقی رہ جائیں گے وہ پاکستان کو نابود کرنے کے لیے کافی ہیں، بی جے پی سے راجیہ سبھا کے ایک ممبر کا بیان مضمون میں درج ہے۔ اگر ہندوستان نے چھیڑ خانی کی تو پاکستان جوہری میزائل استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، پاکستان کے وزیر خارجہ کا بیان اگلے ہی پیراگراف میں دہرایا گیا ہے۔

اتنا ہی پڑھ پاتا ہوں کہ الفاظ دُھندلے پڑ جاتے ہیں، حروف سمٹنے اور غائب ہونے لگتے ہیں۔ دونوں بوڑھوں والی وہی تصویر پھر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ تصویر میں دونوں بوڑھے آنسو نہیں بہا رہے، خوشی سے ہنس رہے ہیں۔

مجھے پتہ ہے میرا یہ خوف خواب ہے اور نہ یہ تصویر۔ یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

ان دونوں کے نقوش وقت کے ساتھ دُھندلے نہیں پڑے اور ان کی آوازیں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں جب وہ بہت خوش ہو کر ملتے ہیں اور پھر فوٹوگرافروں کے کہنے پر اسی طرح دوبارہ ایک دوسرے سے گلے ملنے لگتے ہیں۔

یہ انتظار حسین ہیں۔ خوش مزاج اور خوش خصال۔ جو یاد سے گئے نہیں اور آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے یاد آتے رہتے ہیں۔ برسوں سے بچھڑے ہوئوں کی طرح ان سے مل رہے ہیں یو آر آننتھ مورتی۔ یہ کنّڑ زبان کے ناول نگار ہیں اور ہندوستان کے چوٹی کے ادیبوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔

ان کی ملاقات لندن میں ہوئی ہے اور اس قدر گرم جوشی سے کہ باقی تقریب کو چھوڑ کر سارے فوٹو گرافرز کی توّجہ اسی طرف مبذول ہو گئی ہے۔ مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا۔۔۔ میں بھی وہیں موجود تھا اور حیرت کے ساتھ دیکھ رہا تھا؛ جیسے ان کی مسرّت میں شریک ہورہا تھا۔

اس ملاقات کی خوشی جیسے ساری محفل نے دیکھی۔ بعد میں اس کا احوال میں نے اپنے روزنامچے میں درج کیا۔ لیکن سب سے بڑھ کر خود انتظار حسین نے اسے قلم بند کیا، اور سارا ماجرا میں ان کے الفاظ کے ذریعے سے دوبارہ دیکھ رہا ہوں۔

اس مضمون کا نام ہے__ دوست اس طرح بنتے ہیں۔ اور یہ اس طرح شروع ہوتا ہے:

’’یہ تو لندن جاکر مجھ پر کھلا کہ آننتھ مورتی جی سے میرا تعلق اب رسمی علیک سلیک والا نہیں ہے۔ چپکے ہی چپکے دل کو دل سے راہ ہوئی ہے۔ اور ایک قلبی رشتہ قائم ہوچکا ہے۔ اس خوشگوار احساس کو اجاگر کرنے میں کچھ ہاتھ بکر پرائز فائونڈیشن کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹروداسپریوی کا بھی ہے۔

ہوا یوں کہ جب میں نے بکر انٹرنیشنل پرائز کی تقریب سے اس دیار میں قدم رکھا تو دیکھا کہ اردگرد سب وہ ادیب ہیں جن میں سے کسی سے بھی میری شناسائی نہیں ہے۔ ہوتی بھی کیسے۔ میں اردو ادب کے گھڑے کی مچھلی۔ وہاں کس کس دیس اور کس کس زبان کے ناول نگار افسانہ نگار آئے بیٹھے تھے۔ سو جب میں نے سنا کہ ان منتخب دسوں میں جو یہاں بکر پرائز والوں کے مہمان بن کر آئے ہیں ان میں آننتھ مورتی بھی ہیں تو کتنی خوشی ہوئی کہ ارے واہ واہ اب ایک شناسا صورت بھی نظر آئے گی ایسی کہ جن سے ہماری اچھی خاصی رسم و راہ ہے۔ تو میں بے چینی سے ان کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ اور جب وہ مانوس چہرہ دکھائی دیا تو دل باغ باغ ہوگیا۔ ادھر انھوں نے مجھے دیکھا تو خوش ہو کر میری طرف لپکے اور کتنی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے کہ دل بھر آیا۔

بعد میں آصف فرّخی نے ذکر کیا کہ اردگرد کھڑے کچھ لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اچھا ہندوستان اور پاکستان کے ادیب اس گرمجوشی سے مل رہے ہیں۔ بات آئی گئی ہوئی۔ مگر تیسرے دن جب آخری اجتماع ہوا اور وکٹوریہ البرٹ میوزیم میں محبت کا جام گردش میں تھا تو تروداسپریوی لپک کر میری طرف آئیں اور بولیں کہ آپ ہندوستان کے آننتھ مورتی سے جس طرح گلے ملے تھے وہ لمحہ ہم نے miss کیا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا۔ آپ کو پھر اسی طرح گلے ملنا ہے۔ اس پر میں چکرایا اور کہا کہ وہ لمحہ تو گزر گیا۔ بولیں کہ نہیں، آپ کو پھر اسی طرح بغل گیر ہونا ہے۔ ہم اس لمحہ کو اپنے ریکارڈ میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ میں تھوڑا گڑبڑایا۔ دیکھا کہ قریب ہی آننتھ مورتی جی اپنی بیگم اور بیٹی کے ساتھ آرام سے بیٹھے ہیں۔ میں نے جا کر ان سے اپنی میزبان کی اس خواہش کا ذکر کیا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ کچھ ہچر مچر کریں گے۔ مگر انھوں نے بے ساختہ ایک قہقہہ لگایا اور کھڑے ہو کر اسی گرمجوشی سے مجھ سے بغل گیر ہوئے۔

فائونڈیشن کا فوٹو گرافر مستعد کھڑا تھا۔ فوراً ہی اس نے اس خوشگوار لمحے کو اپنے کیمرے میں اتار لیا۔‘‘

انتظار حسین اور آننتھ مورتی تو اس طرح باتوں میں جُٹ گئے جیسے درمیان میں کوئی تعطّل، کوئی وقفہ آیا نہ ہو۔ ان کے اس قدر انہماک نے لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دیا۔ تقریب کی مُہتمم ٹروڈی حیران ہو کر اُلٹا مجھی سے سوال کرنے لگیں: کیا یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں؟ یہ کس زبان میں آپس میں باتیں کرتے ہیں؟ کیا یہ ایک زبان بولتے ہیں، کیا یہ ایک علاقے کے ہیں؟

میں نے تحمّل سے ان کو سمجھایا۔ یہ اردو، ہندی اور انگریزی بول رہے ہیں، یہ دونوں اپنی زمین اور اپنے خطّے کے باسی ہیں۔

ٹروڈی نے شک بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پھر پوچھا۔ ان دونوں میں سے ایک ہندوستان کے ہیں اور دوسرے پاکستان کے۔

دفعتاً ان کی سمجھ میں آگیا اور انھوں نے فوٹو گرافروں کو پکارنا، جمع کرنا شروع کر دیا۔ ان کی چیخ پکار اس وقت اکارت گئی۔ اس ہنگامے میں ان کی آواز کون سنتا؟ مگر وہ بھی دُھن کی پکّی ثابت ہوئیں۔ انھوں نے دوبارہ ویسا ہی اہتمام کیا اور اسی طرح تصویر کھنچوائی۔ اردو کے، پاکستان کے انتظار حسین بڑے خلوص اور اپنائیت سے کنّڑ کے، ہندوستان کے آننتھ مورتی سے گلے مل رہے ہیں۔

یہ تصویر آج بھی میری یادوں کے خزانے میں محفوظ ہے۔ اس ملاقات کا حال آنکھوں سے محو نہیں ہونے پایا۔

لندن سے واپسی کے کچھ دنوں بعد انتظار صاحب نے یہ مضمون لکھ کر مجھے بھیج دیا۔ میں نے کہا، آننتھ مورتی سے میری اور آپ کی ملاقات برلن میں ہوئی تھی، اس کا حال بھی بڑھا دیجیے۔ اس کی نوبت نہیں آئی۔ آننتھ مورتی کا انتقال ہوگیا۔ انتظار صاحب نے کہا تھا، میں اور بھی شخصی خاکے لکھنا چاہتا ہوں، کچھ دوستوں کا قرض ہے۔ لیکن وہ خاکے بن لکھے رہ گئے اور انتظار صاحب نے اس دنیا سے مُنھ موڑ لیا۔

اب ان کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں۔ انتظار حسین اور آننتھ مورتی کی گرم جوشی کا نقش باقی ہے۔

اس پر مجھے اپنے پرانے اور باکمال ادیب اشرف صبوحی کی بات یاد آئی۔ وہ بصارت سے محروم ہوچکے تھے اور لاہور میں پانی والے تالاب کے نزدیک اپنے گھر میں رہتے تھے۔ میرے والد مجھے لے کر ان کے سلام کو گئے تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں بڑے چہک کر کہا، اچھا ہوا آپ آگئے۔ آپ نے سوچا ہوگا جب دونوں وقت ملتے ہیں تو ہم کیوں نہ ملیں؟

میں سوچتا ہوں اور اپنے ہندوستانی، پاکستانی دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ انتظار حسین اور آننتھ مورتی کی طرح ہم کیوں نہ گلے مل لیں۔ اس سے پہلے کے دونوں وقت مل جائیں، پھر اندھیرا چھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments