میرے عزیز ہم وطنو۔۔۔ بڑی نازک صورت حال ہے‎


\"raza-hashmi\"فکر کی ضرورت ہے یا نہیں، فیصلہ خود کیجئے۔ کہ یہ صرف عنوان نہیں ہے۔ ویسے تو \”میرے عزیز ہم وطنو\” نام ہی اک احساس کا ہے۔ سوشل میڈیائی خبروں کی زبان میں یہ احساس جسم میں بجلی کوندنے جیسی، سنسنی خیز، رونگٹے کھڑے کر دینے والی، ہوش اڑا دینے اور لرزا کر رکھ دینے والی ہوشربا تفصیلات کا مجموعہ ہے۔ ہاں شرط یہ ہے کہ آپ کسی بھی زاویے سے پاکستانی ہوں اور \”میرے عزیز ہم وطنو\” کا مرکز خاص مقام ہو۔ ہماری قوم چار الفاظ کے اس مجموعے کو سننے کے لئے ہمیشہ یوں بے تاب رہتی ہے جیسے بیٹے کے ہاں پہلی اولاد کا انتظار کرتی بےچین \”ماں\”۔ بہو کی آمد اور ہر \”صاحب\” کی تقرری کے فوراً بعد سے چال ڈھال، اوڑھنا بچھونا، طبیعت کا اتار چڑھاؤ، جنبش ابرو، مزاج میں گڑبڑ اور اس قسم کے دیگر اشاروں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اور اگر کسی بھی معاملے میں ہلکی سی بھی \”تبدیلی\” محسوس ہو تو ملین ڈالر سوال تیار ہوتا ہے \”کچھ ہونے والا ہے کیا؟\”۔ جواب ہاں میں ہو تو \” ماں جی \” جوش میں پورے محلے کا یوں چکر لگاتی ہیں جیسے اکثر کھلاڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد گراونڈ کا۔ اگر جواب نفی میں ملے تو تاسف بھری نگاہ آسمان کی جانب بلند کی جاتی ہے اور رنجیدہ سا ارشاد ہوتا ہے \” مجھے تو اس سے یہی امید تھی، بے فیض نہ ہو تو\”۔

عام طور پر میرے عزیز ہم وطنو اس وقت ہی سنائی دیتا ہے جب ہمارے ہاتھوں چنا ہوا ماضی کی دیوار میں چن دیا جاتا ہے یا پھر دوسری صورت میں ہمارے \”ازلی دشمن\” کی جانب سے ہم پر جنگ مسلط کی جا چکی ہو اور ضرورت طبل جنگ بجانے کی ہو۔ گو کہ پہلی صورت تو ہمارے ملک پر ہر وقت طاری رہتی ہے تاہم دوسرے معاملے میں تقریباً 8 سال کے وقفے کے بعد \” کچھ ہونے والا ہے کیا؟\” کی حالت درپیش ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان صورت حال کشیدہ ہے۔ شور و غوغا ہے کہ کان پڑی سنائی نہیں دیتی۔ بھارت کی جانب سے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ اور پاکستان کا رد دعویٰ آیا۔ دونوں طرف بمباری کی ویڈیوز یوں بنانے اور ریلیز کرنے کے اعلان کئے گئے جیسے بمباری کی نہیں بیٹے کے ولیمے کی ویڈیو ہو۔ دونوں طرف کا میڈیا یوں پر جوش ہے جیسے بڑی بہنوں کے چھوٹے بھائی جو گلا پھاڑنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہماری نوجوان نسل عرفِ مختصر \”یوتھ \” یوں آپے سے باہر ہے جیسے دو مرغوں کی لڑائی کے دوران صرف جوش میں الٹی \”گھمن گھیریاں\” کھانے کے لئے موجود چھوٹے جن کی کسی حرکت کا اس ماحول پر کوئی براہ راست اثر نہیں پڑتا۔ سوشل میڈیا پر تو یہی سمجھیئے کہ پاک بھارت جنگ جاری ہے۔ صرف پانچ منٹ اپنی \”وال\” اوپر سے نیچے کیجئے، دو مارٹر گولے آپ کے پاؤں کے قریب آکر نہ پھٹے تو بات کیجئے گا۔

اس صورت حال کو بیان کرتے وقت ہیجان نامی لفظ بھی اپنی کوتاہ رسائی  کا عذر پیش کر کے نکلتا بنتا ہے۔ \”معلوم نہیں کہ یہ کچھ ہونے والا ہے کیا؟\” کی بے چینی ہے یا پھر \”میرے عزیز ہم وطنو جنگ شروع ہو چکی\” کی خماری کہ منہ شعلے اگلتے ٹینک بن چکے ہیں تو کمپیوٹروں کے کی بورڈ کلاشنکوفوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ دماغ ہیں کہ جیسے گولہ بارود کا گودام جس کا ذخیرہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہا۔ جو بھی ہے، بہرحال، یہ ایسی ایٹمی جنگ کی بھٹی کے دہانے کھڑے جیتے جاگتے انسانوں کی سی حالت تو نہیں کہ جس میں چند سیکنڈوں میں قاری و لکھاری سب بھاپ بن کر اڑ جائیں؟

ایسی خوفناک تباہی جو اگر وقوع پذیر ہوجائے تو حال دیکھ کر ہیرو شیما ناگا ساکی کا بھی بے اختیار \”شکر\” نکل جائے؟ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اس دشتِ وحشت کو آگ میں نہا ہی جانا چاہئے۔ شاید لاکھوں ڈگری درجہ حرارت پاک بھارت تفریق، نظریات کی قید، دونوں دیسوں میں بسنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں کے درمیان کچھ سچی اور کچھ جھوٹی نفرتوں کے پہاڑوں کو پگھلاتا ہوا آنے والی نسلوں کو (اگر وہ آنے کے لائق بچیں) کدورتوں کی کثافتوں سے پاک کر دے؟ اگر ہم آگ میں جھونکے جانے کے لئے اتنے ہی بے تاب ہیں کہ ہمارے دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے تو بجا ہے، ایک بار ہو ہی جائے۔ کہ پھر ہی شاید یہ ہنگام تمام ہو؟ جنگ اور بھنگ کے نشے میں کوئی تو تمیز ہو؟ کاش کوئی ہمیں سمجھائے، کاش کوئی بتلائے کہ میرے عزیز ہم وطنو۔۔۔ بڑی نازک صورت حال ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments