اسلحے کے دور میں امن کی دلیل


\"Rashidایک اصطلاح جو کافی مقبول ہے کہ خطے میں \”طاقت کا توازن\” قائم رکھنا چاہئے۔ اس فکر کو جواز بنا کر دنیا نے جدید اسلحے کی دوڑ لگائی، جس میں ایک کی جیت کا مطلب دوسرے کی تباہی ہے۔ دور قدیم میں انسان نے جو سادہ ہتھیار تخلیق کئے، افریقہ کے قبائل میں آج بھی وہ ہتھیار اپنے دفاع کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ وہ دفاع جنگلی مخلوق یعنی خونخوار جانوروں سے بچاؤ کے لئے ہوا یا پھر وہ ہتھیار شکار کے مقاصد کے لئے استعمال ہوتے رہے۔ اس وقت خوراک کا حصول انسانی بقا کے لئے بنیادی شرط تھا۔ چنانچہ وہ لوگ مختلف حربے استعمال کر کے اپنی بھوک کو ختم کرنے کا بندوبست کرتے تھے۔ یہ زمانہ انسانی تہذیب کے منظم آغاز سے قبل کی بات ہے۔

جدید ہتھیاروں کی پیداوار کا مقصد کسی جانور سے اپنے آپ کو بچانا نہیں ہے بلکہ اپنے جیسے انسانوں کے خلاف ان ہتھیاروں کو استعمال کرنا ہے۔ جن کے ساتھ ہمارے فکری اختلافات ہیں جنہیں کئی نام اور عنوان دے رکھے ہیں۔ اس سے صاف مراد یہ ہے کہ انسان کی تہذیبی ترقی کا ثبوت یہ ہے کہ آج جانور سے خطرہ نہیں بلکہ\” انسان کو انسان سے خطرہ\” ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اب بھی انسان اتنے تاریخی تجربات کر کے اور اتنی آفات کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہوئے اور انہین تسخیر کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو غیر متشدد بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہتھیاروں کے اس شوق نے انسان کو تحفظ دینے کی بجائےعدم تحفظ کا احساس دیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کر کے دنیا کو ایک نئی اور شدید تباہی کے منظر دکھا دئے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ مناظر دیکھ کر بھی اسلحہ سازی کی سرگرمی کو محدود نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ تفریحی سرگرمیوں میں بھی اس شوق کو ابھارنے کے لئے ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔ بچے کے ہاتھ میں قلم بعد میں آتا ہے پہلے اسے بندوق نما کھلونے سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ ہم اس حد تک متشدد سوچ کے حامل ہیں کہ اسلحہ کو قدیم قبائل کی طرح آج بھی اپنی شان سمجھتے ہیں۔ چاہے جتنی بھی کوشش کی جاتی رہے کہ تمام ممالک مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے اجتناب کریں گے۔ مگر جب وہ موجود ہیں تو ان کی مزید نقصان دہ شکلیں سامنے آنے کی توقع ہے۔ اس پہ اعتدال پسندی کی کوئی کوشش اپنے منطقی انجام تک اس لئے نہیں پہنچ سکتی کیونکہ ساتھ ہی ساتھ انسان دشمنی کو فروغ دینے کی مہمات جاری ہیں۔ یہ خوف جو آج پوری دنیا کو درپیش ہے۔ لوگوں کے اندر اس خوف کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، ہم سب یہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دنیا میں امن کے لئے جو بھی تقریری یا تحریری کاوشیں ہو رہی ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ رفتار سے دنیا اسلحے کی پیداوار کو بڑھا رہی ہے۔ یہ تضاد در اصل خود ایک جواز مہیا کرتا ہے کہ ہمارا امن قائم کرنے کے بارے میں رویہ کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں موجود مسلح تنظیمیں جو \”قائم مقامی\” (پراکسی وار) حیثیت میں برسرپیکار ہیں ۔وہ کسی نہ کسی نام نہاد جدو جہد کے بہانےخوف اور دہشت کو پھیلا رہی ہیں۔ جدید اسلحہ سے لیس ان افراد کو تمام تعاون اور تربیت بظاہر نا معلوم جانب سے مہیا ہو رہی ہے۔ قتل اور خونریزی کی بدولت لوگوں کو مسلسل دہشت کا شکار رکھا جا رہا ہے۔ غیر مہذب زمانے میں ایک انسان کسی دوسرے انسان کو مار کے اپنی دشمنی مٹا لیتا تھا۔ آج اس ترقی یافتہ اور جدید عہد میں، اتنی علمی اور فکری دسترس اور دعوؤں کے باوجود صرف مارنے پہ بھی اکتفا نہیں ہے بلکہ خوف، دہشت اور اذیت کے ماحول میں زندہ رکھ کر ایک ناقابل تلافی ظلم کیا جاتا ہے۔ ایک شخص، ایک قبیلے یا ملک کے لئے ہی یہ مسلسل ڈر اور خوف نہیں بلکہ پوری نسل کو اس کیفیت میں مبتلا کیا گیا ہے۔ اس خوف کو مختلف ذرائع استعمال کر کے عام کیا جا رہا ہے۔ جدید اسلحے کا استعمال کر کے یا ان کی مختلف انداز سے عکس بندی کر کے، فلموں میں ان کا استعمال بتا کے بچوں کے سامنے متعارف کرایا جاتا ہے۔ ایک 3 سال تک کا بچہ لکڑی کے ٹکڑے کو بندوق بنا کے جب منہ سے فائر کی آواز نکالتا ہے، تو یہ بہت تشویش ناک اشارہ ہے۔ ہم امن کی کوششوں میں مگن کن ترجیحات یا منصوبوں پہ کام کر رہے ہیں ایسے واقعات سے پتہ چلتا ہے۔ امن کا ورد ضرور کیا جا رہا ہے مگر اس کے لئے جو تدابیر اختیار کرنی چاہئے تھیں وہ بد قسمتی سے نظر نہیں آتی ہیں۔

دنیا کو غیر محفوظ بنانے میں \”طاقت کے توازن\” کو قائم کرنے کی جو سعی ہو رہی ہے، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس توازن نے مزید غیر یقینی کی صورت حال کو پیدا کر دیا ہے۔ آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو حملے کی تباہی اور ڈر سے محفوظ ہو۔ زندگی کا تحفط تو اگلا مرحلہ ہے، ہمارے لوگ فکری لحاظ سے آج جتنے غیر محفوظ ہیں ہو سکتا ہے کہ کبھی پہلے اتنے نہ ہوں۔ ہم انسانوں نے انسانیت کے بڑے دائرے سے باہر جو مدار بنا لئے ہیں ان کی وجہ سے آج ہم حقیقی دائرے سے بھی باہر کھڑے ہیں۔ علاقائی، لسانی، فقہی اور مذہبی بنیادوں پہ انسان نے اس قدر اختلافات کو جنم دیا ہے کہ ان سب سے نجات پانا مشکل ہو گیا ہے۔ انسانی تقسیم کی کارروائی کے لئے یہ سب ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ کافی موثر انداز سے ان عوامل کے نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ رجعت دراصل جہالت کا دوسرا نام ہے۔ اس نے اس پورے معاملے میں انسان دشمن کردار ادا کیا ہے۔ انسان کی جذباتی وابستگیوں کو بروئے کار لا کر ایک ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ وہ نفرت اور تعصب کی سوچ کو اپنائیں۔ انسان اپنی خاص رجحان کا مالک ہے اور اس کی مخالفت کو کسی طور بھی قبول نہیں کر سکتا۔

انسان کی اس خاصیت سے ہی فائدہ اٹھا کر شدت پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ہم اور اور ہمارا پڑوسی ملک اس سیارے پہ ایسے دو نقاط ہیں جو قریب ترین واقع ہیں۔ جب قدرت نے مقامات میں بھی کسی دوری کو نہیں رکھا تو پھر ان زمینی تنازعات سے کیوں اس دھرتی میں بارود بونے کی تیاری ہو رہی ہے۔ بھوک اور غربت نے جو تباہی یہاں مچا رکھی ہے، اس سے تو ہم ابھی نبٹ نہیں سکے۔ صرف ہتھیاروں اور جنگی تمغوں کو سینے پہ سجا کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ انسانی خون بہا کر سرخرو نہیں ہوا جا سکتا بلکہ انسانی زندگی کو بچا کے، اسے تحفظ اور احترام دے کے ہم انسانیت کا دعوی کر سکتے ہیں۔ امن کی حقیقی کوششیں جنگ کے بیانات سے نہیں بلکہ مذاکرات سے ہی کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اسلحہ کی صنعتی پیداوار اور پھر اس سے جڑی معاشی سرگرمی امن کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔ دنیا کے وہ مملک جو اسلحے کی برآمدات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ امن کے لٹریچر کو بڑے پیمانے پہ وہی پھیلا بھی رہے ہیں۔ یعنی ایک طرف کوئی یہ خواہش کرتا ہے کہ دنیا میں قتل و غارت گری سے بچ کے اسے رہنے کے قابل بنایا جائے، دوسری طرف اگر ہتھیاروں کی نت نئی تباہ کن خوبیوں کو متعارف کرا کے گاہک ممالک کو راغب کیا جائے تو مطلب بہت ہی واضح ہے۔

ہتھیار فروشی سے حاصل ہونے والی کمائی، دنیا کے تمام تنازعات کو کبھی پر امن حل کی طرف نہیں جانے دیے گی۔ بلکہ مزید کشمکش اور خانہ جنگیوں کا آغاز ہو سکتا ہے، مسائل کو یہ ہتھیاروں کا دھندہ کبھی ختم نہیں ہونے دے گا۔ اسی وجہ سے انسان ہر زمانے میں اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ تصور کرتا ہے کیونکہ اسلحے کے دور میں امن کی کوئی دلیل ممکن نہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہتھیاروں کے کاروبار اور اس کی ترغیبات کو محدود کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments