معاشرتی دباؤ کا انتخاب کون کرتا ہے؟


میں بچپن سے اس کھوج میں ہوں کہ معاشرتی دباؤ کا انتخاب معاشرہ کن بنیادوں پر کرتا ہے اور آخر کون ان بنیادوں کا تعین کرتا ہے؟

بس میں روزانہ ہزاروں لڑکیاں کنڈیکٹر سے لے کر مسافر تک سب کی نگاہ عذاب کو جھیلتی ہیں۔ کوئی معاشرتی دباؤ ان کے دفاع کو نہیں آتا۔ کراچی یونیورسٹی کے پبلک ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے ریسرچ کی ہے کہ %55 خواتین اور بچیاں پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراساں کی جاتی ہیں۔ در حقیقت یہ اعزاز تو ہم سبھی کو حاصل ہوتا ہے مگر %45 اسے مرد کا پیدائشی حق تسلیم کرتی ہیں اور مشہور زمانہ جملہ \”آدمی کوئی شریف نہیں ہوتا\” کہہ کر بات کو اپنے ذہن سے اتار کر امور زندگی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔

ایک خبر کچھ یوں ہے کہ جہیز کے تنازع پر نند نے بھابھی کا سر مونڈ دیا۔ ہاں! ایک عورت نے دوسری عورت کو احساس دلایا کہ ظلم کسی جنس کا اختیار نہیں اور جہالت صرف مردوں تک محدود نہیں۔

بات دراصل کچھ ایسی ہے کہ جب کسی کے گھر بڑا فرج آجائے یا آگ لگ جائے تب تو اہل محلہ آنکھیں کھول کے دیکھنے تشریف لے آتے ہیں لیکن اگر کسی گھر میں بہو کو پیٹا جائے یا اس کو جلا بھی دیا جائے تو اہل محلہ میں اس قدر مروت آجاتی ہے کہ \”وہ ان کے گھر کا ذاتی معاملہ ہے\” کہہ کر مٹی ڈالتے ہیں اور یہی مٹی کبھی کبھی کسی وجود پر بھی ڈالنی پڑ جاتی ہے۔ خواجہ سرا کو تعلیم کے حصول کی اجازت نہیں مگر ساری رات ناچ کر وہ معاشرتی دباؤ کو سلام پیش کر سکتے ہیں۔

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو مقبول ہوئی جس میں ایک نا مکمل مردہ بچے کے وجود کو ایک کتا منہ میں دبائے دوڑتا جا رہا تھا۔ تکلیف اس بات پر نہیں ہوئی کہ ایک جانور اس وجود کو لے جا رہا تھا۔ افسوس اس \”جانور\” پر ہوا جس کی بدولت وہ وجود آدھا ادھورا کچرا کنڈی تک پہنچا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمنٹس میں ہر بندہ اپنے رنج و غصے کا اظہار کر رہا تھا مگر آپ اور مجھ جیسے انگریزی میں گٹ پٹ کرنے والے اور اپنے حسب نصب پر فاخر مخلوقات میں سے کسی کا بھی دل اس کم پڑھے لکھے انگریزی نہ سمجھنے والے ایدھی جتنا نہیں کہ ہم ایسے کسی وجود کو اپنے سینے سے لگا لیں۔ ہماری صرف زبانیں ہی بڑی ہیں۔ سوچ نہیں۔ ہم پر معاشرتی دباؤ ہے۔

گزرے وقت میں گھروں میں پھوہڑ اور جاٹ خواتین جب کہ ٹی وی پر اداکارائیں آیا کرتی تھیں جنہیں دیکھ کر لوگ نا صرف مرعوب ہوتے تھے بلکہ ان کی نقل بھی کیا کرتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب ٹی وی پر پھوہڑ خواتین اور گھروں میں اداکارائیں موجود ہیں تو معاشرتی توازن میں بگاڑ تو آنا ہی تھا۔ تربیت سے عاری نسل پر نسل تیار ہو کر اب فخر کے ساتھ جہالت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتی ہے۔ شادی کے نام پر دنیا میں ہنگامہ مچانے کو تیار مگر اس بات سے انجان کے شادی کا مقصد محض نمائش یا جسمانی ملاپ نہیں بلکہ ایک گھر کی بنیاد رکھنا ہے۔ مگر شادی بھی تو معاشرتی دباؤ کے تحت کی جاتی ہے۔

تعلیم کے نام پر اساتذہ محض کورس ختم کروا کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھتے ہیں۔ اے نادان قوم! اقوام متحدہ کے شعبہ تعلیم کی رپورٹ پڑھو۔ دنیا سے پچاس ساٹھ سال پیچھے ہے پاکستان کا نظام تعلیم۔ دنیا اپنے اسکول کے بچوں کو ڈرون ٹیکنالوجی کے فوائد بتا رہی ہے اور ہم اب تک نظریہ ارتقاء کو کفر سمجھے بیٹھے ہیں۔ ایک طرف مغرب پر لعنت بھیجتے ہیں کہ وہاں تو بزرگوں کو اولڈ ہوم بھیج دیتے ہیں۔ دوسری طرف خود ہر دوسرے گھر میں یا تو بزرگوں کی مٹی پلید کر رہے ہیں یا بزرگ خود تنہائی اور فراغت کے باعث دوسروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ بڑی عید پر بڑا جانور کاٹ کر بڑے فرج میں سب رکھ لیتے ہیں مگر چھوٹا سا لفافہ، تھوڑے سے پیسے ڈال کر کوئی کسی غریب کو بغیر نمائش کے نہیں دیتا۔ یہ کیسا معاشرتی دباؤ ہے جو معاشرے میں سدھار نہیں آنے دیتا؟

سماج میں بگاڑ ہم لائے ہیں تو سدھار بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ تعلیم کے نام پر محض ڈگری کا حصول مقصد نہ ہو۔ کافر اور غدار کی سندیں نہ بانٹیں۔ لیکن یہ کیسا معاشرتی دباؤ ہے جو نئی نسل کو منٹو، ایلیا اور فیض سے بغض پر اکساتا ہے کہ کہیں وہ معاشرے کی منافقت نہ پکڑ لیں۔ وہ ہمارے منافق چہرے نہ پہچان لیں۔ کہیں صحیح تاریخ پڑھ لی تو عظیم بتوں کو نہ توڑ دیں۔

کیا فنا ہو کر ہوش آئے گا؟ لیکن بعد از مرگ ہوش نہیں حساب ہونا ہے اور جب تک حساب کی گھڑی نہ آجائے تب تک ہم سب اس معاشرتی دباؤ کے غلام بن کر معاشرے کی منافقت کو عظمت بخشتے رہیں گے کیونکہ ہم سب بھی تو معاشرہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments