معزز اور غریب چور


فائلوں پر سائن کرنے کے بعد پکڑا تو نہیں جاؤں گا؟ ایک سرکاری ملازم نے اپنے افسر سے سوال کیا۔ جس پر اس کے افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو پیسہ رشوت سے کماؤگے۔ وہی رقم تمھیں باعزت بری کرانے میں مدد دے گی۔ بس اس نذرانے کا بیس پرسنٹ سائیڈ پر رکھتے جانا۔ تاکہ مشکل وقت میں کام آسکے۔ یہ ایک پاکستانی ڈرامے کا سین تھا۔ جس میں ایک بڑا سرکاری افسر اپنے ماتحت کو قومی خزانے پر شب خون مارنے کی ترغیب دے رہا تھا۔

افسر کی تسلی کے بعد ماتحت نے فائل پر سائن کرکے فائل لانے والے سے دو لاکھ روپے بٹور لیے۔ سرکاری افسر کا ماتحت سوچنے لگا۔ ایک سائن کے دو لاکھ برے تو نہیں اس سے تو وہ بہت جلد امیر ہوجائے گا۔ یہ بات تو ہوئی درمیانے معزز چوروں کی۔ جو اینٹی کرپشن والوں کی جیب گرم کرکے خود کو بچالیتے ہیں۔ جو خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جبکہ ان ہی کے آفس میں کام کرنے والے ایماندار افراد اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔ ہم تو ساری عمر محنت کرکر کے بھی کبھی اتنا نہیں کماسکے۔ حالانکہ ہمارا عہدہ بھی ان سے بڑا ہے۔

دوسری جانب ان سے بھی معزز چور ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ جو برانڈڈ کپڑے اور جوتے پہن کر دور سے ہی معزز دکھائی دیتے ہیں۔ آٹے دال کا بھاؤ انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ یہ عوام کے پیسے سے بڑی بڑی جائیدادیں بناتے ہیں۔ پانچ سال تک قومی خزانے کو دل کھول کر لوٹتے ہیں۔ جبکہ ان کے بعد آنے والے خالی خزانے کا رونا روتے ہیں۔ اور آئی ایم ایف کی دہلیز پر کشکول لے کر جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ یہ معزز افراد کبھی پلی بارگین کرکے کسی کی نظروں میں نہیں آتے۔

تو کبھی جمہوریت کے نام لے کر خود کو بچالیتے ہیں۔ لیکن ریحان اور صلاح الدین جیسے چوروں کو تو کبھی عوام تو کبھی پولیس والے ایسی عبرت ناک سزا دیتے ہیں کہ لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ریحان جیسے چوروں کو نہ تو جیل بھیجا جاتا ہے۔ اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان جیسوں کے لیے تو سڑک پر عدالت لگالی جاتی ہے۔ اور ایسے غیر معزز اور پرانے کپڑے پہننے والوں کو تو بیس سے تیس افراد تشدد کرکے اذیت دے دے کر مار دیتے ہیں۔

اپنا ٹائم آئے گا کی آس لگانے والوں کا ایسا ٹائم آجاتا ہے۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرکے انہیں ایسی جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔ جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آتے۔ دوسری جانب اس عبرت ناک سزا کے مرتکب چور کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا تھا۔ پندرہ اگست کو ایک بنگلے میں چوری کے شبے میں چند لڑکوں نے اسے پکڑ لیا اور تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ ریحان کی والدہ ریحانہ ظہیر بیٹے کی موت پر شدید صدمے میں ہے۔

اس نے دہائی دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ریحان نے اگر چوری کی تھی تو کیا چوری کی سزا موت ہے؟ میرے بیٹے کو عمر قید دے دیتے۔ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتے کم سے کم میں اسے دیکھ تو سکتی۔ اگر اس کی سزا موت تھی تو جنہوں نے اسے قتل کیا ان کی سزا کیا ہو گی؟ لیکن ریحان کی ماں کے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ نہ ریاست کے پاس۔ اور نہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے پاس۔

ادھر رحیم یار خان میں اے ٹی ایم توڑنے کے الزام میں گرفتار اور اس عمل کے دوران سی سی ٹی وی کیمرے کو دیکھ کر شکلیں بنانے والے صلاح الدین کی سزا اس کا سوال بنا۔ اس نے پولیس والوں سے پوچھا کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟ قانون کے محافظوں کے پاس تشدد کے سوا کوئی دلیل نہیں تھی۔ ان نام نہاد محافظوں نے سوال کے جواب میں صلاح الدین کو اتنا مارا کہ وہ دم ہی توڑ گیا۔ اس انسانیت سوز واقعے کا مقصد کیا یہ تھا کہ آئندہ کوئی صلاح الدین سوال نہ اٹھائے۔

سوال یوں ہی ذہنوں میں اور دلوں میں چبھن بن کر دب جائیں۔ سب اپنی سوچ پر قفل لگالیں۔ اگر آپ با اثر ہیں تو آپ کو ہر سوال کا جواب ملے گا۔ مگر آپ صلاح الدین جیسے غریب ہیں تو نہ ہی آپ کو بولنے کا حق ہے اور نہ ہی اختلاف رائے کا۔ آپ یونہی ہر صیحح اور غلط بات پر سر جھکاتے جائیں۔ ذہنی غلام بن جائیں ورنہ ایسی عبرتناک سزا کے مرتکب قرار پائیں گے۔ اس لیے سوالوں سے گریز کریں۔ ایوانوں اور سرکاری دفاتر میں بیٹھ کر بڑے اور درمیانے درجے کے چور بنیں۔ جنہیں اس ملک کا قانون تحفظ دیتا ہے۔ مگر چھوٹے چور بنیں گے تو آپ کی سزا وہی ہے جو ریحان اور صلاح الدین کی ہے

مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).