اگر وہ صلاح الدین کی بجائے نواز شریف یا زرداری ہوتا۔ ۔ ۔
مجھے پڑھے لکھے دوست کہتے ہیں کہ تم تاریخ کی غلط سائیڈ پر کھڑے ہو۔ جب تم آج کے ”جمہوری نمائندوں“ کے ”خلاف“ لکھتے ہو تو اصل میں تمہاری سوچ جمہوریت مخالف ہے۔ اس فقرے کا مجھ پر نفسیاتی دباؤ اس قدر پڑا ہے کہ میں نے گزشتہ چند ماہ سے پاکستانی سیاست اور خاص طور پر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے کچھ بھی لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔
دراصل یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں خاص طور پر، جان بوجھ کر احتساب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان پر کرپشن کے الزامات ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ایسے الزامات چوھدری برادران اور حکومت میں شامل دیگر افراد پر بھی ہیں لیکن انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے، انہیں سات قتل بھی معاف ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا، سلکٹیڈ احتساب کیوں؟
خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن میرا اصل سوال اپوزیشن سے اور ان کی جمہوری جدو جہد کے حوالے سے ہے۔ میرا اصل سوال میرے ان دوستوں سے ہے، جو خود کو تاریخ کی صحیح سائیڈ پر کھڑا سمجھتے ہیں اور بضد ہیں کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی موجودہ جدو جہد کی حمایت کی جانا ضروری ہے۔
میں ایک مرتبہ پھر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی یہ جد و جہد جمہوریت کے لیے نہیں اپنے مفادات کے لیے ہے۔ اس کی تازہ مثال صلاح الدین کی پولیس کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت ہے۔ میری نظر میں صلاح الدین ہی اصل عوام ہے اور موجودہ اپوزیشن کو اس سے ذرا بھی غرض نہیں۔
فرض کریں اس طرح اگر نواز شریف صاحب کے بازو کھینچے جاتے، زرداری صاحب کو کہا جاتا کہ زبان باہر نکالو! شہباز شریف کو مکے اور لاتیں ماری جاتیں، حمزہ شہباز یا بلاول کی جلد اُکھیڑ دی جاتی تو جمہوریت پر کیا گزرتی؟
محترمہ مریم نواز کی ٹویٹس پھر کیسی ہوتیں؟ محترمہ آصفہ بھٹو کا رد عمل کیا ہوتا؟ کیا وہ بغاوت پر نہ اتر آتیں؟
نواز شریف صاحب کو گھر کا ناشتہ نہیں ملتا تو آپ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں، لیکن ادھر غریب مر بھی جاتا ہے تو آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
آپ زرداری خاندان کی ٹویٹس اور انٹرویوز نکال کر دیکھ لیں۔ آپ کو پتا چلے گا، ان کو ٹی وی کی سہولت نہ ملنے پر احتجاج ہو رہا ہے، فریج ٹھیک نہیں اس پر احتجاج ہو رہا ہے، جیل میں ناشتہ فائیو سٹار نہیں اس پر احتجاج نظر آئے گا لیکن اس پر احتجاج نظر نہیں آئے گا کہ صلاح الدین کی موت کیسے ہو جاتی ہے؟ اسے اتنے زخم کیسے آتے ہیں؟
محترمہ فریال تالپور کی وی آئی پی گرفتاری پر شور مچایا جائے گا لیکن جن غریب بیٹیوں کو سر کے بالوں سے پکڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا جاتا ہے، ان پر یہ طبقہ احتجاج کیوں نہیں کرتا؟
محترم بلاول صاحب اور محترمہ مریم نواز کہتی ہیں کہ ہمارے والدین کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ عوام نکل بھی رہے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہمیشہ عوام ہی آپ لینڈ کروزروں پر گھومنے والوں کے لیے کیوں نکلیں؟
آپ کے بیرون ملک ٹھاٹ باٹھ سے زندگیاں گزارنی والی اولاد غریب عوام کے لیے کیوں نہیں نکلتی؟ آپ کی آنکھیں وہ ظلم کیوں نہیں دیکھتیں جو آپ کے دور حکومت میں ہی جیلوں میں ہوتا رہا ہے؟
آپ کو اپنے والدین کے چیک اپ کے لیے بہترین سہولتیں اور چار چار اسپیشلسٹ ڈاکٹر چاہئیں لیکن اسی جیل میں جو ٹی بی کا مریض کھانس رہا ہے، اس کی خون والی تھوکیں آپ کو کیوں نظر نہیں آتیں؟
آپ کو اپنے والد کی رات بھر کی بہتر نیند کے لیے اے سی پر احتجاج کرنا آتا ہے لیکن جیل میں موجود وہ خواتین جو گرمی کی وجہ سے رات بھر نہیں سو پاتیں، ان کی آہیں آپ کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچتیں؟
آپ حالیہ مہینوں کی ٹویٹس اور انٹرویوز نکال کر دیکھ لیں، اپوزیشن کے تمام انٹرویوز اور احتجاج انہی سے شروع ہوتا ہے اور انہی پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مجال ہے انہوں نے ایک مرتبہ بھی مکمل طور پر صرف عوام اور عوام کے مسائل کی بات کی ہو۔
میں کیسے مان لوں کے آپ عوام سے مخلص ہیں اور آپ کا موجودہ احتجاج ایک غریب کے مسائل کے حل اور جمہوریت کی بقا کے لیے ہے؟
جناب آپ اشرافیہ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور عوام کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ عوام آپ کے لیے وہ ٹشو بن چکے ہیں، جس سے آپ ہاتھ ناک صاف کرتے ہیں اور ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔
اگر آپ کو عوام کا احساس ہوتا تو جیل میں صرف آپ کو اپنے والدین ہی نہیں، وہاں قید کئی دیگر صلاح الدین بھی نظر آتے؟
آپ کی ساری کی ساری جد وجہد ہی اسی بات کے لیے ہے کہ جیل میں آپ کے والدین سے ویسا سلوک نہ کیا جائے جیسا باقی سسک سسک کر مرنے والے قیدیوں سے کیا جاتا ہے۔ آپ کی جمہوری جد و جہد کی تان یہاں آ کر ٹوٹ جاتی ہے کہ باقی غریبوں کو چھوڑیں ہمیں جیل میں وی آئی پی پروٹوکول دیں۔ جیل کے حالات میں بہتری کا مطالبہ بری بات نہیں لیکن کاش آپ نے یہ مطالبہ باقی لاوارث اور اپنے سابقہ ووٹر قیدیوں کے لیے بھی کیا ہوتا۔ لیکن نہیں آپ ”جمہوریت کی جدو جہد“ کر رہے ہیں اور جمہوریت صرف اعلی طبقے کے لیے بہترین سہولتوں کا نام ہے۔
لیکن جس دن آپ نے اپنے والدین کے ساتھ ساتھ کسی صلاح الدین کے مبینہ قتل پر بھی احتجاج شروع کر دیا میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو جاوں گا۔ جس دن آپ نے اپنے علاوہ باقیوں قیدیوں کے لیے بھی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا مطالبہ کر دیا میں بھی آپ کے لیے آواز بلند کروں گا۔ جس دن آپ نے یہ مطالبہ کر دیا کہ میرے والد کے ساتھ ساتھ باقی دل کے مریض قیدیوں کا بھی روزانہ چیک اپ کیا جائے، میں بھی آپ کے لیے سڑکوں پر نکل آوں گا۔ اگر آپ نے غریب عوام کی بات نہیں کرنی، ان کے مسائل کو مسائل نہیں سمجھنا، ان کے ساتھ ہونے والے جبر و ظلم پر زبان نہیں کھولنی، ان کے لیے احتجاجی ریلیوں کا انعقاد نہیں کرنا، تب تک پلیز مجھے تاریخ کی غلط سائیڈ پر ہی کھڑا رہنے دیں۔
- مطمئن رہنے کا فن سیکھنا پڑتا ہے! - 02/06/2022
- پنجاب کلچر ڈے: یہ پینڈو کہاں سے آ گئے ہیں؟ - 15/03/2022
- ایسے لوگوں سے دور رہیے! - 13/03/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).