عمران خان کا نیا پاکستان: اندھا بھینسا خارجہ پالیسی اور ڈوبتی معیشت


پاکستان نے بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو آئس لینڈ جاتے ہوئے پاکستانی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ بھارتی ائیر لائن اپنے آپریشنز کے لئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر رہی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارتی صدر کو پاکستان پر سے پرواز کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی حکمت عملی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

اس دوران اسلام آباد سے خبر آئی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور تاجروں کی تنظیموں کے درمیان معیشت کو رجسٹر کرنے کے لئے لائحہ عمل بنانے کے مقصد سے ہونے والی ملاقات ایک بار پھر کسی اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگئی ہے۔ اس اجلاس کے دوران تاجروں کے دو مختلف گروہوں کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں سرکاری اہلکار اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ ملک کے تاجر معیشت کو رجسٹر کرنے کے لئے حکومتی اقدامات کو تسلیم نہیں کرتے۔ بجٹ تجاویز کے مطابق ملکی صنعتوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ 50 ہزار روپے سے زیادہ مال خریدنے والے تاجروں سے شناختی کارڈ طلب کریں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس طرح تاجروں کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس رجسٹریشن پر مجبور کیا جا سکے گا۔ اور ملکی معیشت کو باقاعدہ نظام کے تحت لایا جاسکے گا۔

ملک کے تاجر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی جبری رجسٹریشن کے اس طریقہ کو مسترد کرتے ہیں۔ حکومت نے تاجروں کو آمادہ کرنے کے لئے مختلف وعدے کرنے اور تجاویز دینے کی کوشش کی لیکن ابھی تک اس میں کامیابی کے آثار نہیں۔ حکومت اور تاجروں کے درمیان اس تنازعہ کا ملک کی عمومی معاشی صورت حال پر اثر مرتب ہورہا ہے۔ بجٹ خسارہ میں 700 ارب روپے اضافہ کی اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں۔ برآمدات بڑھانے کی کوششیں بھی بارآور نہیں ہوئیں بلکہ تاجروں کے ساتھ رجسٹریشن کے معاملہ پر ہونے والے اختلاف کی وجہ سے اندرون ملک صنعتی مال کی کھپت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس کا اثر روزگار کی مارکیٹ سے لے کر حکومت کی آمدنی تک پر رونما ہونے لگا ہے۔

ملکی معیشت سنگین بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن معیشت کی بہتری اور جمود کو توڑنے کے لئے حکومت کوئی واضح اور دوٹوک حکمت عملی سامنے لانے میں ناکام ہے۔ حکومت نے گزشتہ ایک ماہ بھارت کے خلا ف بیان بازی اور کشمیر کے مسئلہ پر عالمی رائے کو متاثر کرنے کی کوششوں پر صرف کیا ہے۔ اس کے باوجود نہ حکومت کی خارجہ پالیسی کوئی صاف پیغام دے پائی ہے اور نہ ہی معاشی اقدامات کا کوئی نتیجہ برآمد ہؤا ہے۔ دونوں شعبوں میں متضاد اور متصادم اشاریے مسلسل لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج خود اس بات کا اعلان کیا کہ بھارت کے صدر رام ناتھ کووند کو اتوار کے روز آئس لینڈ جاتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور مواصلات کے تعطل کا خاص طور سے ذکر کیا اور کہا کہ ان حالات میں بھارتی صدر کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارتی ائیر لائن بدستور پاکستانی حدود استعمال کر رہی ہے اور بھارت جانے والی دیگر فضائی کمپنیوں کے طیارے بھی پاکستان کے اوپر سے گزر کر ہی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ کابینہ نے ایک بار پھر بھارت کے لئے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی تردید بھی کر دی گئی تھی۔ اس موقع پر بھی شاہ محمود قریشی نے کہا تھا ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ جب ضرورت ہوئی تو وزیر اعظم عمران خان خود اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔ پالیسی کا یہ تضاد ناقابل فہم ہے۔

آج بھارتی صدر کے طیارے کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کے ذریعے دراصل اسلام آباد نے نئی دہلی تک اپنی خفگی پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن کیا اس کمزور اور غیر واضح پیغام سے پاکستان، بھارت کو اپنی سخت گیر پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کر لے گا؟ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان تجارت کے خاتمہ یا فضائی حدود بند کرنے جیسے فیصلوں سے بھارتی معیشت کو کوئی ایسا نقصان پہنچانے کے قابل نہیں ہے جس کی وجہ سے نئی دہلی کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔

پاکستان اگرچہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدام اور وہاں پر پابندیاں عائد کرنے کے خلاف عالمگیر مہم چلائی گئی ہے اور دنیا اب پاکستان کی بات سن رہی ہے اور بھارت پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اس حکمت عملی کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم تو کجا وزیر خارجہ نے بھی ٹیلی فون کرنے اور پاکستان آنے والے مہمانوں کے سامنے اپنا مؤقف بیان کرنے سے زیادہ کوئی قدم اٹھانا ضروری نہیں سمجھا۔ عمران خان نے بھی بیانات دینے اور ٹوئٹر پیغامات میں بھارتی حکومت کو برا بھلا کہنے پر اکتفا کیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی جی۔ 7 اجلاس میں متعدد اہم عالمی لیڈروں سے ملاقات کرچکے ہیں اور بھارت کے وزیر خارجہ نے بھی سفارتی فضا ہموار کرنے کے لئے کئی ملکوں کا دورہ کیا ہے۔

پاکستانی حکومت معیشت کی طرح خارجہ شعبہ میں بھی اہداف مقرر کرنے اور انہیں حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی پالیسی بیان بازی اور اقوام متحدہ کی 70 برس پرانی قرار دادوں پر عمل درآمد کے مطالبے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس مؤقف کے ساتھ پاکستان مسلمان ملکوں کو بھی بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ خبروں کے مطابق گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النیہان نے اسلام آباد کے ایک روزہ دورہ کے دوران پاکستانی حکام پر واضح کردیاتھا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا تنازعہ ہے، اسے مسلم امہ کا مسئلہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کے دوران نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ ترین سول اعزاز دینے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا کہ اس خلیجی ریاست نے پاکستان کو سفارتی شٹ اپ کال دی ہے۔ تاہم پاکستان اسے اپنی ناکامی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

اب پاکستان کی خارجہ پالیسی، کشمیر کو آزاد کروانے کی کوششیں اور بھارت کو نیچا دکھانے کے لئے اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسی ہی امید ہے جیسی ایف بی آر ملک کی تاجر تنظیموں میں رخنہ ڈال کر انہیں حکومت کے کسی ٹیکس پراجیکٹ پر آمادہ کرنے کے لئے کرتا رہا ہے۔ اس طرح ایک طرف آئی ایم ایف کے سامنے مقررہ شرائط پر پورا اترنے کے لئے سرخرو ہونے کی کوشش کی جائے گی دوسرے اس دعوؤں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا نیا خواب سجایا جائے گا کہ ایک سال کی مشکل کے بعد معیشت کو درست راستے پر ڈال دیا جائے گا اور پھر معاشی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہونے لگے گا۔ بدقسمتی سے معاشیات جیسے حقائق پر استوار معاملات اندازوں، دعوؤں، خوابوں اور بشارتوں کے ذریعے طے نہیں ہوتے۔

اس دوران حکومت جی آئی ڈی سی کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے چند صنعتوں کو 220 ارب روپے کی چھوٹ دے کر اتنی ہی بقایا رقم سرکار کو جمع کروانے کا آرڈی ننس جاری کرکے اسے واپس لے چکی ہے۔ چند روز کے اندر کھائی گئی اس قلابازی سے بھی یہی پیغام سامنے آیا ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم معاملات کو سمجھنے اور سنبھالنے میں ناکام ہے۔ یہ تاثر معیشت کو مزید زیر بار کرنے کا سبب بنتا ہے اور تاجروں و صنعتکاروں کی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

ملک کی خارجہ پالیسی دھمکیوں و خوش فہمیوں اور معاشی پالیسی اندازوں اور قافیہ پیمائی پر استوار کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ جزو معطل ہے اور میڈیا کو اقتصادی دباؤ اور انتظامی ہتھکنڈوں سے غیر مؤثر کیا گیا ہے۔ اس دوران اہم ترین لیڈروں کی مسلسل حراست اور حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سیاسی ماحول بدستور کشیدگی اور بے یقینی کی تصویر پیش کررہا ہے۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کی گونج بھی اسلام آباد کے حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کے باوجود عمران خان یا تحریک انصاف اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینے اور غلطیوں سے سیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

یہ حالات ملک اور اس کے باشندوں کی بہبود اور محفوظ مستقبل کے لئے ایک ایسا خطرہ بن رہے ہیں جسے نہ تو سمجھا جا رہا ہے اور نہ اس سے نمٹنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کوئی نیا تصادم یا اچانک سازش ’سب اچھا ہے‘ کی اس تصویر کو اچانک کسی بدنما اور بھدے سانحے میں تبدیل کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali