رات بھی، نیند بھی، کہانی بھی


وہ میری زندگی میں چھ ماہ لیٹ آئی تھی۔
’’منڈیو، اکھ مٹکا کر لیا کرو۔ اے تسی ڈرامے دے منڈے ہوکے وی، شریف دے شریف ریہنڑا اے‘‘؟
ہمیں اس قسم کے طعنے دینا ندیم اکبر ڈار کا معمول تھا۔ اگر چہ میں کیمرا مین نہیں‌ ہوں، لیکن ندیم اکبر ڈار میرے اساتذہ کی طرح ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہی نہیں کہ تکنیکی امور، حتیٰ کہ میرے چاہنے پر ذاتی معاملات میں بھی مشورے دیا کرتے تھے۔ میری غصیلی طبیعت پر اکثر مجھے پیار سے سمجھایا کرتے تھے:
’’پتر شو بز فیلڈ اِچ آو، تے پِتا مار کے آو۔ غصہ نئیں کری دا‘‘۔

میری ایک ٹی وی سیریز آن ایئر تھی، اور میں دوسری ٹی وی سیریز کی رکارڈنگ ڈیٹس فائنل کر چکا تھا۔ آج کل کی ایک معروف ہستی، جو اِن دنوں ایک نام ور خاتون سیاسی رہ نما سے ٹویٹر ٹویٹر کھیل رہی ہیں، نے رکارڈنگ سے ایک روز پہلے بتایا، کہ وہ کل کسی اور کی شوٹ پہ لاہور سے اسلام آباد جا رہی ہیں، لہاذا میں رکارڈنگز ڈیٹس آگے لے جاوں۔ میں نے ضد کر لی کہ میری ڈیٹس تم کسی اور کو نہیں دے سکتیں اور یہ کہ رکارڈنگز کا آغاز کل ہی سے ہو گا۔ میں اور اسلام آباد سے آیا عملہ، ریوازگارڈن کے ایک ہوٹل میں ٹھیرے تھے، جو اُس وقت ہاسٹل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ڈیڑھ دو کلومیٹر دُور، راج گڑھ چوک کی ایک بلڈنگ میں احمد رضا خان رہتا تھا، جو نیوز پیپر ’’نیشن‘‘ میں ملازم تھا۔ رضا ہمارا دوست، آج کل سٹی 42 میں جاب کرتا ہے۔ اس نے ایک آدھ بار مجھ سے کہا تھا، کہ کچھ ماڈلز ہیں، جو ڈرامے میں کام کرنا چاہتی ہیں، اُن کے آڈیشن لے لوں۔

صحافی دوست احمد رضا صبح سویرے مجھے اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہوا۔ میں نے اُس سے کہا، مجھے ہر حال میں، آج ہی سیٹ پر ایک لڑکی چاہیے، جو مرکزی کردار ادا کرے گی؛ آج ہی۔ تو بتاو کون کون ہے جن کا تم ذکر کرتے تھے؟

ٹیلی ویژن پروگرام رکارڈنگز یا فلم کی شوٹنگ کے لیے، 180 ڈگری کو ذہن میں رکھ کے چلنا ہوتا ہے۔ کاغذ پر ایک دائرہ کھینچیے، یہ دائرہ 360 ڈگری کہلائے گا۔ اس کے عین وسط میں ایک لکیر کھینچ دیجیے، لکیر کے ایک طرف 180 اور دوسری طرف بھی ایک سو اسی کا زاویہ بنتا ہے۔ اس سے بھی آسانی سے سمجھنا ہو، تو انگریزی کے حرف تہجی ’’ڈی‘‘ پہ غور کیجیے، ایک سو اسی ڈگری زاویے کی شکل انگریزی حرف تہجی ’’D‘‘ جیسی ہوتی ہے۔ کسی منظر کی عکاسی کرتے، ہدایت کار اپنی ’’فیلڈ‘‘ کا انتخاب کرتا ہے۔ تصور کیجیے کہ زمین پر ایک دائرہ ہے، بیچ میں اس دائرے کو کاٹتی، ایک خیالی لکیر۔ لکیر کے ایک طرف کسی بھی جگہ کیمرا رکھا جا سکتا ہے، لکیر کے دوسری طرف اداکار کی ’’فیلڈ‘‘ ہے۔ اس خیالی لکیر کو کیمرا کراس کر جائے، تو ’’جمپ شاٹ‘‘ رِکارڈ ہو جاتا ہے، جو کہ عیب مانا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ہدایت کار اس خیالی لکیر کو دانستہ کراس کرتا ہے، لائن کراس کرنا اور اس طرح کراس کرنا کہ دیکھنے والے کو بدلتے فریم میں کوئی جھٹکا محسوس نہ ہو، ایسا وہی ہدایت کار کر سکتا ہے، جو تکنیکی طور پہ بہت چابک دست ہو۔ ’’گرائمر توڑنے کے لیے، پہلے گرائمر کو سیکھنا پڑتا ہے‘‘۔

نئی اداکارہ کی بھرتی کے لیے میرے پاس، اس طرح سے انتخاب کا اختیار نہیں تھا، جیسا کہ عام حالات میں ہوتا۔ رضا کے ریفرینس سے آنے والی میں ایکٹنگ ٹیلنٹ نہ ہوا، تو کیا ہو گا؟ میں نے جوا کھیلا تھا۔ انسان کو زیادہ نہیں تو زندگی میں، دو تین چار بار، جوا ضرور کھیلنا چاہیے۔ سہ پہر تک، ’’وہ‘‘ سیٹ پر آ گئی۔ خوش شکل تھی، خوش بدن تھی، پر ایکٹنگ ٹیلنٹ؟ وہ ابھی دیکھنا تھا۔ میں تو اپنی ضد کو پال رہا تھا۔ خدا ضدی افراد کی کچھ زیادہ ہی مدد کرتا ہے۔ وہ کردار کے مطابق تھی۔ پرفیکٹ!

کچھ ہی دِنوں میں وہ ہم سب میں گھل مِل گئی۔ کہنے دیجیے کہ بہت کم لڑکیوں میں، حِس مزاح انتہا پر ہوتی ہے، وہ اُنھی میں سے ایک تھی، جسے فی البدیہہ جواب دینا آتا تھا۔ اس پر مستزاد خوش گلو۔ گنگناتی تھی، تو گویا میٹھے پانی کے جھرنے بہتے ہوں، شعری ذوق کمال کا۔ ہو ہی نہیں سکتا تھا، بھولے سے بھی ایسا نغمہ گا دے، جس کی شاعری کم تر ہو۔

 پائل میں گیت ہیں، جھم جھم کے
تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے

جب میں نے پہلی ٹی وی سیریز کی ہدایات دیں، تو اس سے پہلے معاون ہدایت کاری کا معمولی تجربہ تھا، چنانچہ مہارت کا کیا سوال! پی ٹی کے ایک سینیئر کیمرا مین رزاق بھٹی مرحوم نے مجھے زبانی اسباق دیے تھے۔ ان کے سمجھانے سے مجھے لگتا تھا، کہ میں وَن ایٹی کراس کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ خاص بات بتاوں، کہ ان دنوں مجھے کام تو آتا نہیں تھا، لیکن خود پہ اعتماد دیکھنے لائق تھا۔ جوں جوں تھوڑی بہت سمجھ آتی گئی، قدم ڈگمگانے لگے۔ سچ ہے، کوئی کام تبھی مشکل لگنے لگتا ہے جب اس کام کی سمجھ آنے لگے۔ میرا حوصلہ سینیئر کیمرا مین ندیم اکبر ڈار تھے، بھول چوک میں، میں اس ان دیکھی لکیر یعنی ون ایٹی کراس کر کے کیمرا رکھنے کو کہتا، تو وہ اس جگہ کیمرا رکھ دیتے، جو اس کا صحیح مقام ہوتا۔ میں اپنی بتائی جگہ کیمرا رکھنے پر اصرار کرتا تو وہ رازداری سے کہتے، کہ تم لائن کراس کر رہے ہو۔ رازداری سے اس لیے کہتے، کہ کریو (عملہ) پر میرا بھرم قائم رہے۔

ایک دِن رکارڈنگ کے دوران میں ڈار صاحب فکر مندی سے کہنے لگے:
’’پتر، سِیریس نہ ہوویں۔ تُوں مَینوں سِیریس لگ ریا ایں‘‘۔
’’آپ ہی تو کہتے ہیں، انکھ مٹکا کر لو، اور اب آپ ہی سمجھا رہے ہیں‘‘؟
’’یہ آنکھ مٹکا نہیں ہے، تم انوالو ہو چکے ہو‘‘۔
’’کیا ہو گیا ہے، ڈار صاحب! کیا آپ مجھے جانتے نہیں؟ آپ کو پتا ہے، میں ان معاملوں سے کوسوں دور رہتا ہوں‘‘۔
’’اِسی لیے تو سمجھا رہا ہوں، کیوں کہ میں تمھیں جانتا ہوں‘‘۔
’’نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں‘‘۔
جانے کون سا وقت تھا، کہ میں ون ایٹی کراس کر چکا تھا۔ دانستہ نہیں، ان جانے میں۔ محبت کی کوئی گرائمر ہوتی، تو میں سیکھ لیتا، اور 180 کا خیال رکھتا، کہ کہیں کراس نہ کر جاوں۔ میں جھٹلاتا رہا، لیکن پائل کی چھم چھم سبھی کو سنائی دے رہی تھی۔
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر، جو دھری تھی، سو وہ دھری رہی

اس روز کسی سبب، رکارڈنگز، وقت سے کچھ پہلے روک دی گئی۔ ڈرائیور کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ میں نے اسے اِنتَظار کرنے کو کہا۔ جی چاہتا تھا، وہ جائے ہی نہ؛ اور کچھ بس میں نہیں ہے، تو سب سے آخر میں بھیجا جائے۔ دن رات کی شوٹنگ میں نیند پوری نہیں ہوتی، ایسے موقِع غنیمت ہوتے ہیں۔ وہ ٹی وی لاونج کے سوفے ہی پر سو گئی۔ میں ساتھ کے سوفے پر اپنے اسسٹنٹ روف آفاق کو لیے بیٹھا، اگلے دن کا شیڈول طے کر رہا تھا، کہ دھڑام سے دروازہ کھلا۔
’’کہاں ہے، وہ؟ (نام لیتے) میں اسے دیکھنے آئی ہوں۔ ہمیں تو کبھی پوچھا نہیں، دیکھوں تو کون ہے، وہ؛ جس کے تم دیوانے ہوئے ہو‘‘؟
یوں چھاپا مارنے والی زیب چودھری تھی۔ پہلی سیریز میں زیب نے میرے ساتھ کام کیا تھا۔ وہ بہت زندہ دل عورت ہے۔ ہنستی کھیلتی رہتی ہے، ہر وقت شرارتیں کرنا اس کا معمول ہے۔ اس کی شرارتوں کے قصے کہنے بیٹھوں تو مضمون ہو جائے۔ زیب کی دھماکے دار اینٹری  پر میرے کچھ کہنے سے پہلے روف اچھل کے اس کی طرف بڑھا، اور سوفے پر سوئی ہوئی کی طرف اشارہ کر کے زیب کو ہشیار کیا، کہ مزید کچھ نہ کہے۔ جس طرح زیب نے دھواں دار اینٹری دی تھی، وہ اپنا نام سن چکی ہو گی، مگر سونے کا ناٹک کیے لیٹی رہی۔ اُس وقت تو نہیں لیکن یہ سطریں لکھتے، مجھے احساس ہو رہا ہے، کہ اس کمینے روفی ہی نے زیب کو مخبری کی ہو گی۔ آج ہی کال کر کے اُس سے اگلواتا ہوں۔

’’وہ‘‘، اس کے لیے کچھ کہنے کو میرے پاس لفظ ہی نہیں ہیں۔ داستان میں جو کہا جائے، اُس کی اہمیت نہیں ہوتی، جو نہیں کہا جاتا، اُسے سمجھنے کی کوشش کیا کیجیے۔
شہ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خِرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

وہ میری زندگی میں چھ ماہ لیٹ آئی تھی، ورنہ میں اس سے شادی میں سنجیدہ ہو جاتا۔ میری شادی کو اُس وقت لگ بھگ چھ ماہ ہی ہوئے تھے۔ میری اہلیہ سرکاری ملازم ہیں۔ وہ ان دنوں کوہاٹ میں پوسٹڈ تھیں۔ کیا وجہ تھی کہ میں نو بیاہتا کو دھوکا دیتا! رکارڈنگز کے وقفے کے بیچ میں، میں کوہاٹ گیا اور خود کو کٹہرے میں جا کھڑا کیا۔

نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی

اس سے پہلے میں اُس سے کہ آیا تھا، کہ تمھیں کہیں اور شادی کرلینی چاہیے۔ رکارڈنگز ابھی جاری تھیں، وہ ایک دن منظر سے غائب ہو گئی۔ پتا نہیں اس نے میرا مشورہ مانا تھا، یا اس کا پہلے ہی سے ارادہ تھا۔ کچھ عرصے بعد خبر آئی کہ اُس نے شادی کر لی ہے۔ کب ہوتا ہے، کہ کوئی نہ رہے تو دُنیا کے کام رُک جاتے ہیں! سیریز میں اس کی جگہ ایک اور اداکارہ نے پر کر دی۔

مگر ایک شاخ نہالِ غم، جسے دِل کہیں، سو ہری رہی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran