درندے اور ہماری اگر، مگر ….
ذرا سوچیں کہ ہمارے گھر پر خونخوار جنگلی درندوں نے حملہ کردیا ہے، آئے روز وہ گھر میں گھستے ہیں اور گھر کے کچھ افراد کو جن میں گھر کے بچے بھی ہیں کو نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کرکے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس ان کا کوئی علاج نہیں کہ ہمیں نہیں معلوم وہ کس طرف سے آئیں گے، کہاں حملہ کریں گے اور کس کو نشانہ بنائیں گے۔ ان جیسے کئی درندے جنگل میں نجانے کہاں کہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ گھر کے رکھوالے ان کے ٹھکانوں پر حملہ بھی کرتے ہیں اور ان کو مارتے بھی ہیں، مگر یہ درندے سینکڑوں ہزاروں میں ہیں اور ان کی افزائش مسلسل جاری ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان درندوں کو خوراک کون دیتا ہے، ان کو کون پالتا ہے اور کون ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو پوری قوت سے ان کے تمام ٹھکانوں کو ختم کریں، یا ان کے مددگاروں کو ڈھونڈیں۔
ایسی خطرناک صورت حال میں ہمارے گھر کا بھی عجیب حال ہے، گھر کے کچھ افراد تو ان کو مار گرانے کے حق میں ہیں، کچھ منافقانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور کچھ بہانے بہانے سے ان درندوں کے لئے جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کر لارہے ہیں۔ کیا ایسے ہمارا گھر بچ پائے گا؟کیا ہمیں اس مشکل صورت حال میں پہلے اپنے گھر کو بچانے کے لئے سر جوڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے؟
پاکستان میں جاری خونخوار دہشت گردی کی اذیت ناک صورت حال سے کون واقف نہیں۔ یہ دہشت گردی اپنی سفاکیت کی انتہا کو اس وقت پہنچ گئی جب پشاور میں معصوم بچے بیدردی سے قتل کردیئے گئے، اس اندوہناک واقعہ پر سخت سے سخت گیر دل بھی خون کے آنسو رویا۔ اب چارسدہ کے سانحے کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ ہمارے گھر پاکستان پر حملہ آوار درندے طالبان کا نشانہ سکول پڑھنے والے بچے ہی ہوں گے۔ ہمارے گھر کے افراد کا بھی عجیب ہی حال ہے۔
ایک طبقہ جس میں سیاسی اور مذہبی راہنماوں سے لے کر مین اسٹریم میں لکھنے والے صحافی اور سوشل میڈیا پر ہر گھنٹے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے والے دانشور بھی شامل ہیں اس معاملے پر منافقانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایک عالم دین کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے سے لے کر مرنے کے بعد تک کی زندگی پر د ل نشین تقاریر کرچکے ہیں، مگر مجال ہے کہ انہوں نے اس ظلم پر مذمت کے چند الفاظ بھی کہے ہوں۔ فیس بک اور سوشل میڈیا کے بہت سے دانشور آئے روز نت نئے مسائل ہر اظہار خیال کریں گے، اپنے سونے ، جاگنے اٹھنے بیٹھنے کی تصاویر لگائیں گے، مگر جب بات آئے گی دہشت گردی کی تو مکمل خاموشی۔
یہ تو چلو ایک طبقہ ہے، دوسری طرف طالبان کے کھلے عام حامی بھی یہاں موجود ہیں۔ ایک انوکھا طبقہ اور ہے۔ یہ لوگ اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ ادب، تاریخ، فلسفہ اور مذہبی علوم کے ماہر ہیں۔ ان میں سے اکثر مین اسٹریم میڈیا میں لکھنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ جب یہ لوگ اگر، مگر کرکے، چونکہ ، چنانچہ کی گردان سنا کر، بہانے بہانے سے ان دہشت گرد درندوں کے حق میں دلائل ڈھونڈ کر لاتے ہیں تو سوچیں میرے جیسے ایک عام شخص کو اتنا افسوس ہوتا ہے ، تو اس ماں کی کیا حالت ہوتی ہوگی کہ جس نے اپنا بچہ پڑھنے بھیجا تھا، جو کبھی واپس نہ آیا۔
ان کے کالموں کا تسلسل دیکھیں، بات سمجھ آجائے گی، اگرچہ یہ مذمت تو کریں گے مگر پھر جواز بھی ڈھونڈ کر لائیں گے۔ کیا اہل قلم کے ذمہ یہ فرض نہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اپنی قوم کا ساتھ بنا کسی اگر، مگر کے دیں، اور اپنی فوج کے ساتھ بغیر کسی چونکہ ، چنانچہ کے کھڑے ہوں، کہ ان درندوں کا مکمل صفایا کرکے وطن عزیز میں امن کا دور دورہ ہو!
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).