اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


4ہجری کے ماہِ شعبان المعظم کی تین تاریخ (تا ریخ پر اختلاف مو جود ہے ) کو حضرت سیدہ فاطمہؓ کے ہاں مدینہ طیبہ میں حضرت امام حسین ؓپیدا ہوئے۔ آپ کے نا م کے حوالے سے حضرت عکرمہؓ سے روایت ہے کہ ”جب سیدہ فاطمہ ؓکے ہاں حسن بن علیؓ کی ولادت ہوئی تو وہ انہیں نبی کریمﷺ کی خدمت میں لائیں، آپ نے ان کا نام حسنؓ رکھا اور جب حسینؓ کی ولادت ہوئی تو انہیں حضورﷺکی بارگاہ میں لاکر عرض کیا’یارسول اللہﷺ یہ (حسین ؓ) اس (حسن ؓ) سے زیادہ خوبصورت ہے‘، لہذا آپ نے اس کے نام سے اخذ کر کے اس کا نام حسین ؓرکھا۔“

حضرت ابو رافع ؓسے روایت ہے کہ حضورﷺ نے امام حسینؓ کی ولادت پر ان کے کان میں خود اذان دی اور حکم دیا کہ ”ساتویں دن اس کا عقیقہ کرو اور بالوں کو اتار کر اس کے ہم وزن چاندی خیرات کر دو۔“ حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد سے وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ ”حضورﷺنے حسنؓ اور حسینؓ میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ہی جیسے دودنبے عقیقہ میں ذبح کیے۔ آپ کی تربیت ایسی کہ ہر وقت اپنے ناناجان حضورﷺ کے ساتھ رہتے جو خود ہر چیز کے آداب سکھاتے تھے۔“ امام بخاری ایک واقعہ درج فرماتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ حضورﷺ کی بارگاہ میں زکوٰ ۃ کی کھجوروں کا ٹوکراآیا۔ اتنے میں امام حسینؓ تشریف لائے اور بچے ہی تھے کہ ایک کھجور اٹھا کر منہ میں رکھ لی،حضورﷺ نے اسی وقت آپ کے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور نکالتے ہوئے فرمایا:’نبی کے اہل بیت زکوۃ نہیں کھایاکرتے۔‘“

حضور اکرم ﷺحسنین کریمینؓ سے والہانہ پیارکرتے تھے۔ حضرت زید بن زیادؓ سے روایت ہے کہ ”حضورﷺ عائشہ صدیقہؓ کے گھر سے نکلے تو آپ کاگزر حضرت فاطمہؓ کے گھر کے دروازے سے ہوا توآپﷺ نے سنا کہ حضرت حسین ؓرورہے ہیں، آپﷺ نے فرمایا ’اے فاطمہؓ! تم جانتی ہو کہ حسینؓ کے رونے سے میرے دل کو تکلیف ہوتی ہے،‘ یعنی اس کو رونے نہ دیاکرو۔“ (نزل الابرارص 55 )

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ”میری ان آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا، حضورﷺ حضرت امام حسینؓ کے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے تھے اور امام حسینؓ نے پاؤں حضورﷺکے پاؤں پر رکھے ہوئے تھے اور حضور ﷺفرما رہے تھے ’اے ننھے ننھے قدموں والے چڑھ چڑھ آ۔‘ چناچہ امام حسینؓ جسم اطہر پر چڑھتے گئے یہاں تک کہ اپنے قدم حضورﷺ کے سینہ پر رکھ دیے۔ پس آپﷺ نے فرمایا ’منہ کھول،‘ پھرآپ نے اپنا لعاب دہن حضرت حسینؓ کے منہ میں ڈالا اور چوم لیا، پھرفرمایا ’اے اللہ تو اسے محبوب رکھ میں اسے محبوب رکھتاہوں۔‘“ (اصابہ ابن حجر عسقلانی) ۔

حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے ”حضورﷺ نے حسنین کریمین کی طرف دیکھ کر فرمایا:’اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما‘۔“(جامع ترمذی)۔ ایک اور جگہ حضرت یعلی بن مرہ ؓسے روایت ہے کہ ”حضور ﷺنے فرمایا:’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے گا اللہ اس کے ساتھ محبت کرے گا حسین میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔‘“ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ”حضور ﷺنے فرمایا:’حسنؓ اور حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘“ اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت عمر بن خطابؓ سے بھی موجودہے۔

امام حسینؓ کا اخلاق حسنہ ایسا کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ”ایک دن میں حضرت حسینؓ کی خدمت میں بیٹھاہوا تھا کہ ایک کنیز نے پھولوں کا گلدستہ لا کر پیش کیا۔ گلد ستہ ہاتھ میں لے کر حضرت نے سونگھا اور کنیز کو ارشاد فر مایا، ’جاؤ تم آزاد ہو۔‘ حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے پوچھا ’حضرت آپ نے ایک گلدستہ پر اتنی اچھی خوبرو کنیز کوآزاد کر دیا۔‘ آپؓ نے فرمایا ’اللہ فرماتا ہے، جب تمہیں اچھا تحفہ پیش کیا جا ئے توتم اس جیسا یا اس سے بہتر تحفہ دیا کرو۔ پس اس لئے سب سے اچھا تحفہ یہی ہو سکتاتھا کہ میں اسے اللہ کے لئے آزاد کر دوں‘“ (تحفہ اثناعشریہ ازشاہ عبدالعزیز)۔

جناب حسینؓ اپنے وقت کے بڑے عالم اور فاضل تھے، انہوں نے پیدل پچیس حج ادا کیے۔ آپؓ کے اندر بہادری اور شجاعت کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔ آپؓ کی بہادری کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب باغیوں نے حضرت عثمان ؓکے مکان کا محاصرہ کیا تو حضرت علیؓ نے امام حسین ؓکو آپ کی حفاظت کے لیے مقر رکیا۔ آپ نے بہادری سے خدمات سر انجام دیتے ہوئے کسی کو حضرت عثمانؓ کے قریب نہ جانے دیا۔ اسی طرح جنگ صفین اور معرکہ نہروان بھی اپنی بہادری سے سر کیا، قسطنطنیہ کی مہم میں بھی حضرت حسین ؓنے عظیم شجاعت کا مظاہرہ کیا۔

حدیث میں آتا ہے ”حضورﷺکی چچی ام الفضل بنت حارث (حضرت عباس بن عبدالمطلب کی شریک حیات) ایک روزحضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اس حال میں کہ گود میں سیدنا امام حسینؓ تھے۔ آپ نے انہیں حضورﷺ کی گود میں دیا تو میں نے دیکھا کہ رسولﷺکی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ میں نے عرض کیا ’یا رسول اللہﷺمیرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں کیا بات ہے؟‘ تو آپ ﷺنے فرمایا ’جبرائیلؑ میرے پاس آئے ہیں، پس انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔‘ حضرت ام الفضل نے عرض کیا ’کیا واقعی ایسا ہو گا؟‘ تو حضورﷺنے فرمایا:’ہاں میرے پاس اس جگہ سے وہ مٹی بھی لائی گئی ہے اور وہ مٹی سرخی مائل ہے۔‘“ (مستدرک الحاکم 2 : 177 )

ایک حد یث حضرت سیدہ ام المومنین ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ ”حضورﷺ نے فرمایا کہ ’جو مٹی مجھے حسین ؓکی قتل گاہ کی دی گئی ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں اس مٹی سے دکھ اور مصیبت کی بو آتی ہے اس کو اپنے پاس سنبھال کر شیشی میں رکھ لو۔ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے تو سمجھ لینا میرا بیٹاحسینؓ کر بلا میں شہید ہو گیاہے۔‘“ اس سے ثابت ہے کہ سب کو قبل از شہادت معلوم تھا کہ امام حسینؓ کربلا میں شہید ہوں گے۔ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد یزیدخلیفہ بنا تو امام حسین نے اس کی بیعت سے انکار کر دیا، اور کوفہ والوں کے بلاوے پہ عید سے دو روز قبل صبح صادق 8 ذوالحجہ کو کوفہ کی جانب روانگی کی تیاری ہوئی۔

اس سفر کے راستے میں مختلف منزلیں طے کیں، جیسا کہ صفاح، پھرعراق میں خیمے نصب کیے، پھرزرود، نویں منزل بطن عقبہ، دسویں منزل شراف، گیارہویں سرات، بارہویں منزل، تیرہویں منزل بیضہ، چودھویں منزل قصر نبی مقاتل اور پندرہویں منزل پر کربلا پہنچے۔ تین محرم کو کربلا میں عمروبن سعد چار ہزار یزیدی لشکر کے ساتھ وارد ہوا، مگر اس جنگ حق وباطل میں یزیدی لشکر کی کل تعداد سیدنا امام زین العابدین نے تیس ہزار کے لگ بھگ بتائی جبکہ سپاہ حسینی کی تعداد پر شدید اختلاف موجود ہے، بعض نے تعداد 72 لکھی، کسی نے 82، کچھ نے 73، 77 اورکہیں 140 درج ہے۔

سیدنا امام زین العابدین سے صیح تعداد کا پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد 145 تھی۔ 7 ویں محرم کو یزیدی فوج کے سربراہ عمروبن سعد نے سینکڑوں فوجی دستے دریائے فرات کے کنارے متعین کر کے سپاہ حسینی کے لیے پانی بند کر دیا۔ اس کے بعد جو معرکہ ہوا اس میں حضرت علی اکبرؓ ابن سیدنا امام حسینؓ شجاعت سے لڑتے آخری وقت تک اباجان سے تھوڑاسا پانی مانگتے ہوئے شہیدہوئے، حضرت محمدؓبن حضرت امام مسلمؓ، حضرت جعفرؓابن عقیل، حضرت عبدالرحمنؓ، حضرت عونؓ، شہزادہ حضرت قاسمؓ، حضرت ابوبکرؓاور طفل شیر خوار علی اصغرابن امام حسینؓ شہید ہوئے۔ جن کی شہادت پر امام حسینؓ نے کہا، ”اللہ تیراشکر ہے کہ حسین کی یہ چھوٹی سے قربانی بھی قبول فرما لی ہے۔“

سپاہ حسینی کی شہادتوں کا یہ سلسلہ امام حسین ؓپر ختم ہوا، جو اپنی انکھوں سے سارے گھرانے کو شہید ہوتا دیکھ چکے تھے۔ آخری وقت پر نواسہ رسولﷺپر تیروں، تلواروں اور نیزوں سے وار کرنے والوں میں ابومختوف جعفی، صاع بن وہب، سنان بن انس، مالک بن سر کندی اورخولی بن یزیدشامل تھے۔ حضرت امام حسینؓ دسویں محرم الحرام، جمعتہ المبارک کے دن ٹھیک بوقتِ عصر چھپن سال پانچ ماہ اور پانچ دن کی عمر اقدس میں اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔

شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بناء لا ا ِ لہٰ ا ست حسینؓ

(از خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).