جنوبی ایشیا پر جنگ کے بادل اور سیاسی جگت بازیاں ۔۔


اگست کے اوائل سے کشمیر کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور وادی لہو لہان ہوچکی ہے۔ کشمیری عوام کی آواز دبانے کے لئے بدترین ریاستی تشدد اور ہر قسم کی ابلاغ پر پابندی لگا دی گئی جس کے باعث کشمیر ایک جیل بن کر رہ گیا ہے۔ انٹر نیشنل میڈیا اس صورتحال پر مسلسل آواز اٹھا رہا ہے اور دنیا بھر کے سیاسی رہنما خطہ میں بڑھتی کشیدگی پر پریشان ہیں اور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سے بھارت اور پاکستان مذاکرات کی میز پر آجائیں اور مسئلہ کا کوئی منصفانہ حل نکل سے جس سے فریقین مطمئن ہوں اور علاقہ میں دیرپا امن قائم ہو۔

ایسے نازک موقع پر جب کہ خطہ ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے ہمارے ایک سینئیر سیاستدان شیخ رشید فرماتے ہیں کہ ”مجھے اکتوبر نومبر میں پاک بھارت جنگ نظر آرہی ہے“ ایک اور بیان میں فرماتے ہیں ”ہمارے پاس ایک ایک پاؤ کے ایٹمی بم بھی ہیں۔ “ کچھ اسی قسم کے غیر ذمے دارانہ بیانات سرحد کی دوسری جانب سے بھی داغے جا رہے ہیں اور میڈیا جلتی پر تیل کا کام کرریا ہے جس سے ان کی ریٹنگ میں تو شاید اضافہ ہو جائے لیکن دونوں طرف کے عوام کو جنگی جنوں میں مبتلا کردینا کوئی دانشمندی نہیں ہوگا۔ ایک معمولی سی لغزش پورے خطے کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیل سکتی ہے جس کا مداوا شاید ہی کبھی ہو پائے۔ اس قسم کے لایعنی بیانات سے ہرگز کوئی بہتری آنے والی نہیں۔ بہتر ہوگا دونوں طرف کی قیادتیں اور دانشور مل بیٹھ کر کوئی ایسا حل تلاش کریں جو طرفین کو قابل قبول بھی ہو اور آنے والے دنوں ایک امن کی فضا قائم ہوسکے۔

مجھے یقین ہے کہ دونوں طرف کی قیادتوں اور فوجی جنتا کو مجھ سے کہیں زیادہ علم ہوگا کہ آج کل کی جنگ ایف سولہ طیاروں، بوفورزتوپوں اور میزائلوں کی نہیں بلکہ اقتصادیات کی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے دنیا نے عظیم سوویت یونین کو ٹوٹتے دیکھا جبکہ اس کے اسلحہ خانوں میں اس وقت بھی ایک اندازے کے مطابق پینتیس ہزار سے زیادہ ایٹمی ہتھیار تھے لیکن عوام روٹی کو ترستے تھے اور روس کی اقتصادی اور معاشی حالت تباہ تھی۔ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور کوئی اہٹمی ہتھیار کام نہ آیا جو روس کو ٹوٹنے سے بچا سکتا۔

جرمنی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دو حصوں میں تقسیم کرکے فاتح ممالک نے بندر بانٹ کرلی۔ جاپان کے دو شہروں کوایٹم بم مار کے نیست و نابود کردیا گیا۔ اس کے باوجود ان اقوام نے کیا کبھی ”امریکہ مردہ باد“ کے نعرے لگائے۔ ہاں انہوں نے اپنی صنعت اور معیشت کو مضبوط کیا اور آج یہ دونوں ممالک بغیر کسی جنگ اور ایٹمی ہتھیار کے دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ چین کی مثال لے لیں افیون زدہ قوم کا یہ ملک (جدید چین) ہمارے ساتھ ہی وجود میں آیا، آج وہ کہاں اور ہم کہاں ہیں۔ آج یورپی ممالک اور امریکہ کی مارکیٹ اس کے ہاتھ میں ہے اور چین امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔

جب تک ہم حالت جنگ سے باہر نہیں نکلیں گے اور کھلی آنکھوں دنیا کا مشاہدہ نہیں کریں گے۔ علم و تحقیق کے میدان میں کامیابیاں حاصل نہیں کریں گے اور اپنی معیشت بہتر نہیں بناتے اور ملک میں فوجی آمریتوں کے بجائے حقیقی جمہوریت کو پنپنے کا ماقع فراہم نہیں کرتے اس وقت تک بہتری کی کوئی امید فضول ہے۔ سادہ لوح عوام کے ذہنوں کو مذہبی منافرتوں، فرقہ واریت، انتہا پسندی کی روز ایک نئی اور پہلے سے زیادہ ہائی ڈوز خواراک دے کر مفلوج کردیا گیا ہے اور اس طرح عوام کو اتنا تقسیم اور پولارائز کردیا گیا ہے کہ ان میں قوت مزاحمت مفقود ہوچکی ہے۔

ان کے ذہن ماؤف اور سوچ مقید ہوچکی ہے۔ وہ بیچارے نان شبینہ اور اپنی روز مرہ کی ضرورتوں ہی میں اتنے الجھا دیے گئے ہیں کہ حکومتی بیانئیے یا چینلز پر ہونے والے بے مغز ٹاک شوز سے آگے دیکھ اور سوچ ہی نہیں پاتے۔ سوال کرنے اور مکالمے کی روایت اٹھ چکی اور اگر کوئی کبھی اس کی جرات کرے تو کبھی غدار، کبھی ملحد، کبھی کافر کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ اکثر تو غائب ہی کردیا جاتا ہے یا اس کی لاش کسی ویرانے میں پڑی ملتی ہے۔

کبھی طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین ہوا کرتی تھیں جہاں جالب، فیض اور دوسرے انقلابیوں کو گاتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے اور ان روشن خیال نوجوانوں، شاعروں اور ادیبوں سے حکمراں خوف زدہ رہتے تھے۔ ان کی نگرانی کی جاتی تھی۔ لیکن اب تو یہ حال ہے کہ معاشرے سے کتاب علم و ادب کو دیس نکالا مل چکا ہے۔ طالبعلم اور نوجوان اب حکومت وقت کے لئے کوئی خطرہ نہیں رہے ان کو مذہبی شدت پسندی پر لگا دیا گیا ہے جو اپنی اپنی رنگ کی پگڑیوں، داڑھیوں اور شلوار کے پائچوں میں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

وہ جو کہ کبھی ”سرخے“ کہلاتے اور انقلاب کی بات کر تے تھے تھک کر بیٹھ گئے کہ انقلاب زندہ معاشروں میں آتا ہے۔ مکالمہ اور اختلاف با علم سوسائٹی ہونے کی دلیل تھی جو کفر اور الحاد کے فتوؤں میں دب کے خاموش ہوگیا۔ بس اب تو جہاد کشمیر و فلسطین اور غزوہ ہند کی تیاریاں کریں۔ کہاں کا انقلاب اور کیسی روشن خیالی۔ قوم کو جذباتی نعروں اور جنگی جنوں میں مبتلا کردیا گیا جس سے باہر نکلنا ہوگا وگرنہ آنے والا مورخ ہم پر روئے گا کہ ایک ترقی پذیر اور روشن خیال قوم نے کس طرح اپنا سفر پیچھے کی جانب شروع کیا۔

جو حکمراں آتا ہے ایک انوکھا نعرہ لاتا ہے کبھی غزوہ ہند کی نوید سنائی جاتی ہے۔ کبھی ”کشمیر بنے گا پاکستان،“ کبھی ”پاکستان اسلام کا قلعہ ہے“ یا ”پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔“ کوئی مسلم امہ کی راگنی چھیڑ دیتا ہے تو کوئی ریاست مدینہ کی لالی پاپ دیتا ہے اور اپنا الو سیدھا کرکے قوم کو ایک اور اندھیری سرنگ میں دھکیل کر چلتا بنتا ہے۔ اور بیچاری سسکتی بلکتی مخلوق پھر کسی نئے مسیحا کے انتظار میں انہی شاطروں کو ایک دوسرے روپ میں قبول کرلیتے ہیں اور ایک بار پھر وہی نعرے اور نئی بونگیوں پر زندہ باد مردہ باد کے راگ الاپنے لگتے ہیں۔

ایک گردن مخلوق کہ ہر حال میں خم ہے
ایک بازوئے قاتل ہے جو خوں ریز بہت ہے

حقیقت تو یہی ہے کہ آج افغانستان کی حالت زار اور تباہی میں ہمارا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ افغانستان میں اسٹراٹیجک ڈیپتھ ڈاکٹرائن نے وطن عزیز کو کہیں کا نہ چھوڑا اور اپنے ساتھ افغانستان کا بھی امن برباد کر ڈالا۔ چند روز قبل امریکہ میں ایک افغانی سے تبادلہ خیال کا موقع ملا وہ پاکستان کو کوس رہا تھا اور اپنی بربادی کا مورد الزام ٹھرا رہا تھا۔ ابھی حال ہی میں ورلڈ کپ کرکٹ کے ایک میچ کے دوران بھی افغانیوں کی پاکستان سے نفرت کے مناظر دیکھے گئے، یہی حال کشمیریوں کا ہے۔ ان کی تحریک آزادی اور ان کے موقف کو ہماری وجہ سے اتنی پذیرائی نہیں ملی۔ آج ہمارا کوئی پڑوسی ہم سے خوش نہیں ہے اور دنیا میں ہماری کوئی تائید نہیں کرتا۔

وہ مسلم امہ جس کے غم میں ہم مرے جارہے ہیں وہ ہمیں منھ نہیں لگاتی۔ کیا وجہ ہے کہ یاسر عرفات ہوں شاہ سلمان ہوں یا خلیجی ریاستوں کے شیخ سب کے سب بھارت کو ہم پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کی قیادت کو اعزازات سے نواز رہے ہیں اور وہیں سرمایہ کاری کررہے ہیں ہاں کبھی کبھی حقیر سی بھیک امداد یا قرض کے نام پر ہماری جھولی میں ڈال دیتے ہیں جسے ہمارے احمق حکمراں اپنی ”کامیاب خارجہ پالیسی“ سے تعبیر کرتے ہیں۔

آج کے حالات کے تناظر میں جب نام نہاد مسلم امہ کے ممالک بھارت کے وزیر اعظمم مودی جی کو اعزازات سے نواز رہے ہیں جبکہ کشمیر لہو لہان ہے آخر ہم کیوں عربوں کی خوشنودی میں اسرائیل سے بگاڑ کئیے بیٹھے ہیں جبکہ ہمارا اس سے کسی قسم کا جھگڑا بھی نہیں؟ جس فلسطین کے لئے ہمارے پیٹ میں زیادہ مروڑ اٹھتا ہے وہ ہمیشہ سے بھارت نواز رہا ہے۔ یاسر عرفات نے کبھی پاکستان کو منھ نہیں لگایا اور نہ ہی کشمیر کے موقف پر ہماری کبھی تائید نہیں کی۔

کئی عرب ممالک اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ عرصے سے سفارتی تعلقات قائم ہیں تو پھر ہمیں عرب رومانس میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے میں کیا قباحت ہے۔ سعودی عرب کے بھی وفود اکثر اسرائیلیوں سے ملتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ابھی حال ہی میں اومان نے بھی اسرائیل سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسرئیل کے نیتن یاہو اور اس کی خفیہ ایجنسی کے افراد اومان کا دورہ بھی کررہے ہیں۔ شنید ہے کہ یہ وفد اسلام آباد یاترا بھی کرچکا ہے لیکن ابھی تک سرکاری سطح پر اس کی تصدیق یا تردید ہونا باقی ہے۔

دنیا میں ہمیشہ سے سب سے بڑی ترجیح مشترکہ مفادات رہے ہیں سارا کھیل ٹائمنگ اور کامن انٹریسٹ کا ہوتا ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل دشمن بن جاتے ہیں اگر دینی اور مسلکی رشتے ہی مضبوط تعلقات کی ضمانت ہوتے تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا وہ ہم سے کم مسلمان نہ تھے۔ بھول جائیں کہ کبھی اسرائیل فلسطین کو چھوڑے گا یا کشمیر کبھی ہمارا ہوسکے گا۔ اس خوش فہمی سے جتنی جلدی نکل آئیں بہتر ہے اور جنگی جنون کو فراموش کرکے معاشی ترقی اور امن کا راستہ اختیار کیا جائے بصورت دیگر بربادی ہی خطہ کا مقدر ہوگی۔ دوسرے کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے اور خود ساختہ ”اسلام کا قلعہ“ بننے سے گریز کیا جانا چائیے۔ پہلے اپنی عسرت اور بدحالی پر تو قابو پالیں۔ ضروری ہے کہ قوم کو مغالطوں سے نکال کر سچ کی دنیا دکھانا ہوگی۔

آج کی جنگ ایٹمی نہیں بلکہ معیشت کی جنگ ہے۔

کیا ہی اچھا ہوکہ اگر کل نہیں تو آج یہ بات سمجھ آجائے۔ معیشت کبھی بھی حالت جنگ میں نہیں پنپتی بلکہ یہ امن کی گود میں پروان چڑھتی ہے اور امن صرف اور صرف جمہوریت اور بقا ئے باہمی ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں دیتی۔ کیا ہمارے سفارتی اور تجارتی تعلقات ”کیمیونسٹ چین اور ملحد روس“ سے نہیں۔ کیا کل تک یہی روس ہمارا سب سے بڑا دشمن تصور نہیں کیا جاتا تھا جو بوجوہ ہمیشہ ہمارا مخالف ہی رہا اور اس نے کشمیر کے موقف پر اقوام متحدہ میں ہماری ہر قرارداد کو ویٹو کردیا۔

لیکن اسی روس کے ساتھہ آج ہم مشترکہ جنگی مشقیں بھی کررہے ہیں اور دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ ایک بہتر حکمت عملی ہے۔ یاد رہے دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھتی ہیں اور اپنے نقائص اور غلطیوں سے کچھ سبق سیکھتی ہیں۔ لیکن ہم تو کسی سنہری ماضی کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی قوم ہیں جو آج کی دنیا اور اس کے تقاضوں سے آنکھیں چرائے ایک خواب غفلت میں محو ہیں۔

وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اسرائیل ہی نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک سے دوستی اور تجارتی تعلقات اپنی خود مختاری اور سلامتی کی بنیاد پر جلد از جلد استوار کئیے جائیں تاکہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملکوں میں امن اور آتشی کا دور دورہ ہو جس سے خطے کی عوام کی خوشحالی منسلک ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ایسا ہوپائے گا کہ ہم اسرائیل سے سفارتی تعلقات اور خطے کے دیگر ممالک سے دوستی اور پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر اپنی سالمیت اور خود مختاری کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرسکیں اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیں جس میں کسی مذہبی انتہا پسند گروپ یا لشکر کا دخل نہ ہو۔ یہ اس نازک وقت میں حکومتی وزرا ہوش مندی کے بیانات دیں۔ کہیں ان کی یہ شعلہ بیانیاں کوئی طوفان نہ لے آئے۔

خطے میں ایک ہولناک جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ دونوں فریقین کے پاس ایک گھریلو یا انڈسٹریل آتشزدگی یا غیر معمولی بارش سے نمٹنے کے انتظامات تو ہیں نہیں، دونوں طرف عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے، ان کے پاس صاف پینے کا پانی اور بیت الخلاء کی سہولت تو ہے نہیں اور وہ ”فرسٹ اسٹرائیک“ اور ”سیکنڈ اسٹرائیک“ کی بات کررہے ہیں۔ جنگ کا مطلب صرف اور صرف مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ نہ کوئی فاتح بچے گا اور نہ ہی مفتوح۔ سب آناً فاناً بھسم ہوجائے گا۔

جنوں میں ڈھالی ہوئی ان ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں

پچھلی جنگ تو گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

پچھلی جنگ میں تو پیکر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ پرچھائیاں بھی جل جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).