افغانستان میں امن مذکرات منسوخ ہونے سے پاکستان مشکلات کا شکار ہو گیا: حامد میر


ممتاز صحافی حامد میر نے لکھا ہے کہ افغانستان میں امن مذکرات منسوخ ہونے سے پاکستان مشکل صورت حال میں گھر گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی اور پاکستانی حوکومت نے قبل از وقت مذاکرات کی کامیابی کے دعوے شروع کر دیے حالانکہ امریکی سفارت کاروں اور طالبان مین بنیادی نکات پر اختلاف بدستور موجود تھا۔ پاکستان مین کچھ حلقے ان مذاکرات کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کی تیاری کر رہے تھے لیکن ٹرمپ کی طرف سے مذاکرات منسوخ کئے جانے پر صورت حال اچانک مکمل طور پر بدل گئی ہے۔

حامد میر کے مطابق پاکستان نے طلابان رہنما ملّا عبدالغنی برادر کو اس وقت گرفتار کیا جب یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ وہ  اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ خفیہ بات چیت کر رہے تھے۔ اس وقت پاکستان کے مقتدر حلقے ناراض تھے کہ ملّا عبدالغنی برادر نے پاکستان سے بالا بالا اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ حامد میر یہ بھی کہتے ہیں کہ ملّا عبدالغنی برادر کی گرفتاری میں اُس وقت کے پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ذاتی مفاد بھی وابستہ تھا کیونکہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے ملّا برادر کو گرفتار کر لیا تاکہ افغان امن مذاکرات میں اُن کی اہمیت بڑھ جائے اور اس اہمیت کی وجہ سے اُنہیں توسیع مل جائے۔ جنرل کیانی کو توسیع تو مل گئی لیکن افغان امن عمل آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ ملّا برادر نے گرفتاری کے بعد پاکستانی حکام سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔

گزشتہ سال زلمے خلیل زاد کو امریکی صدر کا نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مقرر ہونے کے بعد پاکستان سے ملّا برادر کی رہائی کا مطالبہ کیا کیونکہ ملّا برادر کے بغیر امن مذاکرات ممکن نہیں تھے۔ لہٰذا اکتوبر 2018ء میں پاکستان نے ملّا برادر کو رہا کر دیا۔ اس دوران کچھ حلقوں نے ان مذاکرات کی کامیابی کے قبل از وقت دعوے شروع کر دیئے۔ افغان طالبان بار بار کہتے رہے کہ یہ مذاکرات ہماری نہیں بلکہ ٹرمپ کی ضرورت ہیں، ہم امن کے نام پر سرنڈر نہیں کریں گے۔ دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی بھی طالبان کے پاکستان سے روابط پر خوش نہیں تھے۔

زلمے خلیل زاد کو امید تھی کہ اگست کے پہلے ہفتے میں امن معاہدہ ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک فریق امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتا رہا اور دوسرا فریق غیرمشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا رہا۔ اس دوران امریکی حکومت کو بھنک پڑ گئی کہ امن معاہدے کے فوراً بعد افغان نیشنل آرمی کا بڑا حصہ طالبان کی حمایت کا اعلان کر دے گا۔ چنانچہ امن معاہدہ امریکی حکومت کے لئے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو جائے گا۔ اس پر امریکی حکام بھڑک اٹھے۔ امریکی صدر ٹرمپ معاہدے کی امید پر پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کر رہے تھے۔ اب مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد پاکستان ایک مشکل صورت حال مین گھر گیا ہے۔ ٹرمپ امن معاہدے میں ناکامی کے باوجود امریکی عوام کو بتائیں گے کہ افغانستان کو طالبان کے حوالے نہیں کیا گیا۔ لیکن افغان صورت حال کو بہتر بنانے کی ذمہ داری پاکستان پر آن پڑی ہے جس کا انحصار ملّا عبدالغنی برادر پر ہے۔ ملّا عبدالغنی برادر پاکستان کی بجائے افغان مفادات کو سامنے رکھیں گے چنانچہ پاکستان افغانستان میں امن کے حوالے سے موثر کردار ادا نہیں کر سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).