میرا کوہِ نور تمہارے پاس پڑا ہے، وہ بھجوا دو


\"mustansar

اپنے گلزار صاحب کا گیت ’’میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے ، وہ بھجوا دو‘‘ان دنوں بہت یاد آرہا ہے کہ ہر جانب سے صداآتی ہے کہ میرا کوہِ نور ہیرا تمہارے پاس پڑا ہے وہ بھجوا دو۔ خاص طور پر ہندوستان میں تو دھڑا دھڑ عدالتوں میں برطانوی سرکاری کے خلاف مقدمے دائر کئے جا رہے ہیں کہ کوہ نور ہمارا ہے تم نے خواہ مخواہ اسے ہم سے ہتھیا کے اپنے شاہی تاج میں ٹانک رکھا ہے، ہمارا سامان ہے واپس بھجوادو۔ادھر پاکستان میں بھی کسی صاحب کی حمیت جاگی اور اُنہوں نے بھی کوہِ نور کی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ صرف ہندوستان پاکستان ہی نہیں ایران اور افغانستان بھی اس ہیرے کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ پہلے تو ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی بیان آیا کہ کوہِ نور ہتھیایا نہیں گیا تھا، انگریزوں کوتحفے میں دیا گیا تھا اس لئے ہمارا حق نہیں بنتا اس پر جب احتجاج بہت ہوا تو ایک اور بیان آگیا کہ کوہِ نور گولکنڈہ کی کانوں میں سے دریافت ہوا تھا، اس لئے یہ ہمارا ہے۔دور ہٹو اے دنیا والو کوہِ نور ہمارا ہے، اُدھر کچھ انگریز تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم مغلیہ سلطنت کے وارث تھے اس لئے ہم قانونی طور پر اس کے بھی وارث ہو گئے۔

ہم پاکستان والوں کو یوں بھی اپنی تاریخی وراثت کی کچھ زیادہ پروا نہیں، ہم تو ابھی یہ ثابت کرنے کے چکروں میں ہیں کہ آخر یہ سرے محل، فرانس کا قلعہ، لندن کے فلیٹ اور جائیدادیں کس کی وراثت ہیں۔ تو ہمیں اُس پتھر سے کیا لینا دینا جسے کوہِ نور کہا جاتا ہے چنانچہ پاکستانی حکومت یا عوام کی جانب سے کبھی بھی کوہِ نور کے حصول کے لئے آواز بلند نہیں ہوئی۔ماضی اور حال کے حکمرانوں نے تو درجنوں ذاتی کوہِ نور عوام سے ہتھیا لئے ہیں تو اُنہیں ایک کوہِ نور سے کیا غرض۔یوں بھی بہ فرض محال یہ ہیرا پاکستان کو واپس کردیا جاتا ہے تو وہ سرکاری خزانے میں جمع ہوگا۔ اُن کے خزانوں میں تو جمع نہیں ہوگا تو فائدہ۔ اور اس سارے قصے کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اگر کوہِ نور پر کسی کا جائز حق بنتا ہے تو صرف اور صرف پاکستان اورتخت لاہور کا بنتا ہے کہ یہ ہیرا تخت لاہور کے خزانے میں تھا جب یہ دلیپ سنگھ کے ہمراہ انگلستان روانہ کیا گیا۔

ولیم ڈل امپل نے لکھا ہے کہ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے خزانوں سے کیا حاصل کرنا تھا کہ یہ آخری مغل تو انگریزوں کی عطا کردہ بھیک پر گزر اوقات کرتے تھے اور یہ تفصیل اُس کی کتاب ’’آخری مغل شہنشاہ‘‘ میں درج ہے۔ دراصل یہ رنجیت سنگھ کے تخت لاہور کا خزانہ تھا جو اُن کے ہاتھ آیا۔ اس خزانے کی پوری تفصیل تاریخ میں درج ہے، پورے برصغیر میں یہ تخت لاہور کا خزانہ تھا جو کسی بھی مغل شہنشاہ کے خزانے سے کہیں بڑھ کر کشمیری شالوں، قالینوں، سونے چاندی اور ہیروں سے لبریز تھا اور ان میں کوہِ نور بھی شامل تھا۔

یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ میں کوہِ نور کی پوری تاریخ کی تفصیل میں جاؤں۔مختصراً یہ کہ جب شاہ شجاع اپنے افغان حریفوں سے شکست کھا کر وہاں سے فرار ہوا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اُسے پناہ دی، مبارک حویلی اُس کے خاندان کے لئے وقف کردی۔ مہاراجہ جیسے اَتھری گھوڑیوں اور عورتوں کا شوقین تھا ایسے وہ ہیروں کا بھی شوقین تھا۔ جانتا تھا کہ شاہ شجاع اپنے لبادوں میں پوشیدہ کرکے کوہِ نور بھی لاہور لایا ہے وہ اُس کے حصول کا تمنائی تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شاہ شجاع نے کوہِ نور کو اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا چنانچہ ایک روز مہاراجہ اور شاہ قدرے مخمور تھے اور مہاراجہ چونکہ شراب پینے کے باوجود ہوشیار رہتا تھا اُس نے شاہ شجاع سے کہا کہ آؤ ہم ایک دوسرے کے بھائی بن جاتے ہیں۔ روایت کے مطابق پگڑیاں تبدیل کرلیتے ہیں، شاہ شجاع اُس کی پناہ میں تھا کیسے انکار کرتا اور یوں کوہِ نور رنجیت سنگھ کی ملکیت میں آگیا۔ ڈل رِمپل کے مطابق یہ روایت درست نہیں، دراصل شاہ شجاع نے مہاراجہ سے درخواست کی تھی کہ افغانستان کی سلطنت کے حصول میں میری مدد کیجئے۔ اگر آپ میرے لئے پشاور فتح کرلیں تو میرا کام آسان ہو جائے گا اور میں اس مہربانی کے عوض کوہِ نور آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔

شاہ شجاع کے لئے جنرل ہری سنگھ نلوہ کی سرکردگی میں ایک فوج پشاور روانہ ہوئی اور اُسے فتح کرلیا۔رنجیت سنگھ نے جب معاہدے کے تحت کوہِ نور طلب کیا تو شاہ شجاع لیت و لعل کرنے لگا اور تب مہاراجہ بھی طیش میں آگئے۔ شاہ شجاع نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پکڑا گیا اور یوں کوہِ نور سِکھ سلطنت کے خزانے میں چلا گیا۔کوہِ نور کی زیبائش تب انتہا کو پہنچی جب آفریدی پٹھانوں سے ایک خونریز جنگ کے بعد ’’اسپِ لیلےٰ‘‘ گھوڑی چھینی گئی اور جب اُسے لاہور کے قلعے میں تخت نشیں رنجیت سنگھ کے سامنے پیش کیا گیا تو منظر کچھ یوں تھا کہ دونوں جانب کنیزیں گھوڑی پر پھول برساتی تھیں اور مہاراجہ کی خواہش کے مطابق گھوڑی کے گلے میں کوہِ نور ہیرا آویزاں تھا۔ درباریوں کے منع کرنے کے باوجود مہاراجہ نے اسپِ لیلےٰ پر سواری کی اُسے لاہور قلعے کے فصیل کے پہلو میں دوڑایا اور پھر اتر کرکہنے لگا، تم مجھے اس کے اتھرے پن سے ڈراتے تھے، ایک گھوڑی خوب جانتی ہے کہ اس کا سوار کون ہے۔

ایک مرتبہ پھر مختصر مختصر۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد انگریزوں نے جرأت کی اور ستلج کے پار پنجاب میں آئے۔ وہ تخت لاہور کے خزانے پر قابض ہوئے۔ چھوٹے دلیپ سنگھ کہ انگلستان سے گئے اور دلیپ سنگھ کے سامان میں کوہِ نور بھی تھا۔ ملکہ وکٹوریہ نے اُسے بیٹا بنا لیا، نہایت شفقت سے پیش آئی، ایک محل اُس کی رہائش کے لئے الاٹ کیا اور تب اُس بچے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی انگریز گورنس نے اُسے کہا کہ ۔ دیکھو ننھے پرنس، ملکہ عالیہ وکٹوریہ جس کی سلطنت پر سورج نہیں ڈوبتا تم پر کتنی مہربان ہیں، تمہیں سگے بیٹوں کی طرح چاہتی ہیں تو یہ جو تمہارے سامان میں ایک فضول سا پتھر کوہِ نور نام کا پڑا ہے تو تم شکرگزاری کے طور پر اُنہیں پیش کردو تو کیا حرج ہے، دلیپ سنگھ یوں بہلایا پھسلایا گیا، عیسائی بھی ہو گیا اور کوہِ نور ملکہ وکٹوریہ کو بھی پیش کردیا۔

بعدازاں دلیپ سنگھ جوان ہوا، قدرے باغی ہوگیا، پیرس میں جمال الدین افغانی سے پنجاب کی آزادی کے لئے اُس کا ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا، پھر وکٹوریہ کے سامنے شرمندہ ہو کر معافی مانگی۔
دلیپ سنگھ کی بیٹی پرنس بمباں سدر لیند میرے ناول ’’راکھ‘‘ کی ایک انوکھی کردار ہوئی۔ میں نے جیل روڈ کے مسیحی قبرستانو میں اُس کی قبر دریافت کی ۔ چنانچہ کوہِ نور اگر لاہور سے گیا تو اُسے اگر واپس آنا ہے تو لاہور آناچاہیے، ہندوستان کا اُس پر کوئی حق ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن ہم کیا کریں، اُس ہیرے کو کیا کریں جو کبھی شاہ شجاع کا مسلمان تھا، پھر رنجیت سنگھ کا سِکھ ہو گیا اور آخرمیں دلیپ سنگھ کا عیسائی ہیرا ہو گیا۔ ایسے سیکولر ہیرے کا کیا کریں۔ وہ نور یا روشنی کا ایک پہاڑ ہے یعنی روشن خیال سا ہے تو اُس کا کیاکریں، بس دفع کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments