”تم بڑے ہو“ کہہ کر بڑے بہن بھائیوں کو چھوٹوں سے دور نہ کریں


۔

جب بھی تعلق پہ بات کی جاتی ہے تو بہت قریبی ہونے کے باوجود اس اہم تعلق کے جذباتی اور نفسیاتی پہلو پہ بہت کم بات ہوتی ہے۔ والدین اور اولاد کے تعلق کی طرح اس تعلق کو بھی حقیقی بنیادوں پہ دیکھنے کی بجائے ایسے غیر حقیقی پیمانے بنا لیے گئے ہیں جو بہن بھائیوں کے آپس کے رشتے کو مضبوط بنانے کی بجائے مزید الجھاؤ کا شکار کردیتے ہیں۔ مثلاً بھائی، بہنوں کی ہر فرمائش پوری کرنے کے لیے کچھ بھی کرے گا۔ بہن، بھائی کا ہر کام کرنے کے لیے دوڑ دوڑ کے جائے گی۔ جبکہ حقیقت میں ان رویوں کا تعلق مکمل طور پہ تربیت پہ ہے۔ جب تک یہ روئیے سکھائے نا جائیں تب تک ایسی باتیں بہن اور بھائی دونوں کے لیے ایک ناگوار ذمہ داری بن کے رہ جاتی ہیں۔

ایک چھوٹا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کے اردگرد جو کردار موجود ہوتے ہیں ان میں والدہ عموماً باورچی خانے میں پائی جاتی ہیں اور والد دفتر میں۔ اگر مشترکہ خاندانی نظام ہوتو بچہ دادی دادا پھپھو چاچا وغیرہ کے پاس رہتا ہے لیکن بڑوں کی بہ نسبت بچے بچوں کے ساتھ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ نوزائیدہ بچے کے گرد مزید چھوٹے بچے ہوں تو بچے کو ہر وقت توجہ دینے کے لیے کچھ نیا سیکھنے سیکھانے کے لیے کوئی نا کوئی موجود ہوتا ہے۔

نفسیاتی تحقیق کے مطابق بالغ افراد کے روئیے کی بنیاد پہ پہلے، دوسرے یا درمیان کے اور سب سے چھوٹے بچوں کی شخصیت میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ اسے ہم قدرتی جبلت پہ محمول کرتے ہیں کیوں کہ ہمیں اپنے روئیے کے فرق کا احساس نہیں ہوتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گھر والوں اور والدین کا رویہ مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے دوسرے تیسرے اور آخری بچے سے الگ الگ ہوتا ہے۔ یی روئیے کا فرق ان شکایات کہ وجہ بنتا ہے جو والدین اور اولاد کے درمیان مزید فاصلے پیدا کر دیتی ہیں۔ کسی بچے کو یہ شکایت کہ بڑے ہونے کی وجہ سے اس پہ ذمہ داری زیادہ ڈالی جاتی ہے، کسی کو یہ شکایت کہ درمیانہ ہونے کی وجہ سے اسے توجہ نہیں دی جاتی اور چھوٹا ہونے کی حیثیت سے کسی کو یہ شکایت کہ اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

ایسی شکایات کی صورت میں والدین کا جوابی رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سختی سے اس شکایت کو رد تو کر دیتے ہیں مگر شکایت دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہاں سے والدین اور اولاد اور بہن بھائیوں کے آپس فاصلے بننا اور بڑھنا شروع ہوتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے کچھ بھی خود بخود نہیں ہوتا بچپن میں تربیت کی ذرا سی لاپرواہی بچے کی شخصیت اور رشتوں میں ہمیشہ کی دراڑ پیدا کرسکتی ہے۔

والدین اور باقی گھر والوں کی سب سے پہلی غلطی کہ پہلے بچے کو بے انتہا توجہ دی جاتی ہے جس کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی سامنے ہوتا ہے اس کی ہر نئی حرکت پہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس کا مسکرانا، بیٹھنا، چلنا، بولنا ہر ہر سنگ میل سیلیبریٹ کیا جاتا ہے۔ اس کا ہر کام کوئی نا کوئی دوسرا کر کے دیتا ہے۔ اب اگر تو دوسرے بچے کے آنے میں صرف ایک سال کا فرق ہے تو یہ وی آئی پی پروٹوکول ایک ہی سال میں ختم ہوجاتا ہے ورنہ جتنا وقفہ پہلے سے دوسرے بچے کے درمیان میں ہوگا یہ پروٹوکول اتنے سال چلے گا۔

کچھ گھرانوں میں یہ منطق بھی استعمال کی جاتی ہے اور اس کا برملا اظہار کیا جاتا رہتا ہے کہ، کیوں کہ یہ پہلی اولاد ہے اس لیے سب سے زیادہ عزیز ہے۔ مگر یہ بھی سوچیے کہ اس میں پہلی اولاد کی اپنی کوئی محنت نہیں نا دوسرے تیسرے یا پانچویں نمبر پہ آنے والے کی غلطی کہ وہ پہلے نہیں آسکے۔ یہ رویہ بہن بھائیوں میں ان دیکھا فاصلہ پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سب سے بڑا پراعتماد شخصیت کا حامل ہوتا ہے جسے سب اس کی ذاتی خوبی سمجھتے ہیں۔ اس کی اس خوبی کی بنیاد پہ اُسے، اُس سے چھوٹوں کے لیے بار بار مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی سب سے بڑے کے لیے غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی۔ تم بڑے ہو تمہیں یہ نہیں کرنا تم بڑے ہو تمہیں وہ نہیں کرنا، یہ زبردستی کی ذمہ داری اُس معصوم ذہن کے لیے ناقابلِ قبول بھی ہے اور اس کی ہمت سے کہیں زیادہ بھی بلکہ سمجھیے اس کے لیے جذباتی تشدد ہے کہ معصومیت کی وہ غلطیاں جو اس کا حق ہے جن سے وہ سیکھے گا آپ نے سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے اس سے چھین لیا۔

گھر میں دوسرا بچہ چاہے ایک سال بعد آئے یا پانچ سال بعد اس کے آتے ہی پہلا بچہ فوراً بھیا اور آپی کے عہدے پہ فائز ہوجاتا ہے اور ایک ایسی کڑی ذمہ داری کا آغاز ہوتا ہے جس کے لیے وہ معصوم ذہن بالکل تیار نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی سیکھ رہا ہے کہ بڑے ہونے کا مطلب ہر وقت کسی نا کسی کام کے لیے منع کرنا ہے۔ کیوں کہ اس کے بڑے اسے عموماً کسی نا کسی کام سے منع کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے کا قدرتی رویہ اور سیکھا گیا رویہ اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ والدین سمجھ نہین پاتے کہ کیا رویہ بچے نے ان سے سیکھا اور کون سا اس کی عمر کا تقاضا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بچپن کی معصومیت کو بدتمیزی، خود پسندی اور لاپرواہی سمجھا جانے لگتا ہے۔

اسی طرح درمیانے اور چھوٹے بہن بھائیوں کے رویئے بھی جانچے جاتے ہیں جو مکمل طور پہ بڑوں کے روئیوں کا ردعمل ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی صنف کی بنیاد پہ غیر ضروری ذمہ داریاں یا چھوٹ دی جاتی ہیں اور کچھ عرصے بعد ترتیب پانے والے روئیے کو اس صنف کا قدرتی رویہ سمجھا جاتا ہے۔ بیٹا ہو تو اسے باہر جانے کی اجازت ہوگی۔ غصہ دکھانے کی اجازت ہوگی۔ چیخنے کی، بھاگ دوڑ کرنے کی، بھی اجازت ہوگی مگر روئے گا تو لڑکیوں یا بہنوں کی طرح رونے کا طعنہ دیا جائے گا۔

یہاں سے بہن بھائیوں کے درمیان ایک اور دراڑ آتی ہے۔ وہ آزادی جو بھائی کو میسر ہے بہن کو نہیں اور جو توجہ بہن کو ملتی ہے کیوں کہ وہ پریشان ہونے پہ اور تکلیف میں رو سکتی ہے یہ اجازت بھائی کو نہیں۔ یہ وہ عمومی معاشرتی روئیے ہیں جو مشرقی معاشروں میں ہر دوسرے گھر میں نظر آتے ہیں۔ مگر کچھ روئیے اس کے برعکس بھی ہوتے ہین مگر وہ بھی غیر متوازن سمجھے جانے چاہیئں جب گھر کے لڑکوں کو نہ توجہ دی جاتی ہے نا محبت اور احساس سے عاری ہونا ان کی فطرت سمجھا جاتا ہے۔

گھر کی لڑکیوں کو زیادہ محبت دی جاتی ہے کہ یہ توجہ سے پڑھتی ہیں، خیال رکھتی ہیں اور نازک ہوتی ہیں اور سب سے بڑی بات کہ انہیں پرائے گھر جانا ہے۔ کچھ گھرانو‍ں میں بچپن ہی سے گھر کی لڑکیوں کو غیر ضروری وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے کہ انہیں اگلے گھر جانا ہے اور کیوں کہ سسرال کا ماحول کسی کو نہیں پتا اس لیے باپ کے گھر میں ہر محبت اور آسانی دی جائے۔

اس کے نیتجے میں بھائی ہمیشہ توجہ کی کمی کا شکار رہتے ہیں ساتھ ہی ان پہ کمانے اور خود کو ہمیشہ جذبات سے عاری ظاہر کرنے کا بوجھ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں یہ دوسرا بوجھ پہلے بوجھ سے کہیں زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہے کہ آپ نے خود اسے جذبات کا اظہار کرنے سے روکا بھی ہے کیوں کہ مرد ایسا نہیں کرتے اور پھر شکایت بھی کہ وہ دوسروں کا احساس کیوں نہیں کرتا۔ دوسرے کے احساسات سمجھنے کے لیے ایک مکمل تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس میں پہلا قدم اس فرد کے اپنے جذبات کا احساس کرنا اور اہمیت دینا ہے۔

جبکہ ہمارے معاشرے میں لڑکے سارا دن باہر رہیں تو کوئی نہیں پوچھتا کہ کہاں تھے بلکہ گھر کے ماحول سے سکھایا جاتا ہے کہ اگر کسی نے ایسا پوچھا تو یہ مردانگی پہ حرف سمجھا جانا چاہیے۔ وہی گھر جہاں بہن کو اجازت لے کے بھی باہر جاتے ہوئے ہزار دقتوں کا سامنا ہے لڑکا باہر کہاں تھا کیا کر رہا تھا۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے گھر کے لڑکے کو بتدریج گھر والوں سے جذباتی طور پہ دور کر دیتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی سیکھ جاتا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔

جبکہ لڑکی کے لیے یہ روئیے بالکل الگ ہیں اسے سکھایا جاتا ہے کہ اسے ہر کام دوسروں کی اجازت لے کر کرنا ہے اور دوسروں کی خوشی کے لیے کرنا ہے۔ یعنی اسے پتا ہو کہ کب والدین کسی کام کی اجازت دے بھی رہے ہیں تو اسے اس اجازت کا استعمال نہیں کرنا صرف احسان سمجھ کر شکرگزار ہونا ہے۔ یہ بچپن کی ٹریننگ آخر کار شادی کے فیصلے پہ کام آتی ہے۔

یہاں آکر وہ لڑکا لڑکی جو اب تک بہن بھائی کی بنیاد پہ ایک مسلسل صنفی جنگ لڑ رہے تھے نئے رشتے میں بندھ کر ایک الگ طرح کی جنگ کا حصہ بن جاتے ہیں جس پہ ہم اگلے مضمون میں بات کریں گے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima