اکیسویں صدی کا پاکستانی معاشرہ اور کڑوا سچ


حقیقت سچائی پر مبنی ہوتی ہے یہ سچائی کبھی بے حد کڑوی ہوتی ہے اور کبھی میٹھی۔

سچ درحقیقت، آگہی اور اس کی روشناسی ہے ( اگر اس میں ذاتی مفاد شامل نہ ہو) ۔ ایک اچھے معاشرے کی تخلیق بھی اسی صورت رکھی جا سکتی ہے جب کہ بھلے برے کا پتہ ہو۔

آنکھ چرانے سے سچائی نہیں بدلتی میی معاشرے کا حسن بیان کرنا چاہتی تھی لیکن میرے سامنے میرے معاشرے کا حسن دم توڑتا سسک رہا تھا۔ اور اب بدنمائی پوری اذیت پسندی کے ساتھ اس معاشرے کی صورت مسخ کر رہی ہے۔

منٹو، انتظار حسین، ڈاکٹر انور سجاد، سرمد صہبائی کے گئے اور موجودہ ادوار میں ہمارے معاشرے کا عام آدمی جبلت، عقل اور معاش میں الجھا جبر اور دباؤ برداشت کرتا رہا جب کہ دوسری طرف استصالی گروپ شرافت کا لبادہ اوڑھ کر شرفاء اور معززین پیدا کرتا رہا۔ مختلف ادوار میں یہ جبر برداشت کرتا طالبعلم ہے یا محنت کش، جو کبھی کبھی چیخا تو، پر جبر سے بغاوت نہیں کر پایا۔ اس نے اسی دباؤ میں جینا سیکھ لیا۔

آج کی موجودہ صدی انسانی کامیابی کی معراج پر کائنات فتح کرنے کے منصوبے بناتی اسے تسخیر کر رہی ہے۔ مغربی ممالک اس کی کلی تصویر نظر آتے ہیں۔

صدی کے محض دعوے سمیٹتا ہمارا معاشرہ خود کو اس صدی میں بھی کامیابی سے لپیٹ گیا۔ پہلے صرف استحصالی گروپ لبادہ اوڑھے تھا اب یہ لبادہ بناوٹ کا ہے جو ہر ایک اوڑھے (خود ساختہ کامیابی کا لبادہ جسے ہر ایک نے اپنے مزاج کے مطابق اپنے گرد تیار کیا ہے ) خود سے جھوٹ بول رہا ہے۔ بھرم بازی کا وتیرہ انسانی جانوں پر حاوی ہوچکا ہے۔ سچ بیان ہورہا ہے لیکن دوسرے کا۔ بناوٹی جینا اور سیکھ لیا اس سے بھی نہ معاشرے کا جبر بدلا نہ حقیقت نہ اس کا دوغلاپن دور ہوا۔

دور بھی ہوتا تو کیسے!

آپ اپنے دام میں ہم گرفتار ہوئے۔

اب اس منافقانہ رویے کے شکار بھی۔ ہم سب خود پر اپنے جیسے پر ظلم کرنے لگے ہیں۔ اور اسی بے رحمی، ظلم و بربریت میں اپنی عظمت ڈھونڈ رہے ہیں۔ اب ہم خود کو اس بے رحم رویے کے ساتھ عظیم لگنے لگے ہیں۔

ہم نے جبر میں معاشرے کو کیسے اور کیوں جینا سکھایا اور دباؤ میں کیوں بزدلی کے ساتھ جینا سیکھا۔ ؟

پہلے ادب دور کیا۔ تعلیمی نظام تباہ کیا اور سستی ڈائجسٹ ہاتھوں میں پکڑا کر معاشرے کی بھرم بازیاں معاشرے کا رہن سہن بنایا، منافقانہ طرزعمل کو عورت مرد کے درمیان خلیج بنا دی۔ نوجوانوں کو تعلیمی معیار سے بے اعتباری سکھائی۔ مفاد پرستوں کو امیروں کی بستیوں میں پہنچایا۔ متوسط طبقے میں شوبازی کے شوشے چھوڑے۔ کبھی سچائی کا شور بلند ہوتا ہے، حقیقت پسندی کی آنکھ کھلتی ہے تو مذہبی دنگل شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ تمام ہوتے نہیں کہ سیاسی منافق میدان میں بھرم چاری بن جاتے ہیں۔

اور یہ ساری گولیاں خبر بنا کر دماغوں میں اتاری جاتی ہیں۔ محنت کش دقیانوسی قرار پائے، ان کو شہروں میں دھکیل دیا گیا۔ شہر میں یہ محنت کش خودمختار طبقہ سستی، مفت، شہری سہولیات پر خود کو مہذب سمجھتا جھونپڑ پٹی آباد کرتا رہا۔ یہ معمولی نوکری پر آمادہ بھی ہوا اور اپنے جیسے محنت کش کو دیہاتی جاہل ہونے کا طعنہ بھی دینے لگا۔ ملا، مفاد پرست پڑھے لکھے، دانشور بنے اپنی سستی عقل مہنگے داموں فروخت کرتے بھرم بازیاں سیکھاتے رہے اور اکیسویں صدی کے کامیاب مغرب کی کامیابی سے ہم نے صرف ماڈلنگ انڈسٹری گھسیٹی۔

جہاں کسی شعبہ میں تخلیقی کاوش، فنون ڈالے جاسکتے تھے اس میں ہم کو پڑوسی کا چربہ زیادہ سازگار لگا سو اس کا کوڑا اٹھائے، فلم انڈسٹری بنانے لگے۔ نوجوانوں کا دماغی استحصال کرنے میں ترقی پسند بھی پیچھے نہیں رہے انسانیت سکھانے کے بجائے لادینیت، آوارگی کو جلا بخشی۔ جس کو جہاں کمتری کا طعنہ ملا اس نے اپنے سے نیچے کسی اور کو پاس کردیا۔ نوجوان اور محنت کشوں نے خوشی خوشی جبرو استحصال تنزلی کا یہ طوق پہنے رکھا اور آگے پہنایا۔

بھرم باز معاشرے میں ہمارا تخلیق کردہ ”نام کا بہترین“ معاشرہ ہم نہ دیکھ سکے نہ اس سے جان چھڑا سکے۔ بغاوت تو دور کی بات تھی۔ ویسے بھی ہم تو ”بس کام چلا لو“ بن چکے تھے۔ اسی کو جینا کہہ کر چل چلاؤ سیکھ رہے تھے۔

ابھی تک یہ معاشرہ کام چلاؤکے ذہنی مفلوج پیدا کر رہا تھا کہ اس بھرم باز معاشرے کی سڑکوں پر ایک مردہ بچے کا بنیان پر لکھا ”اپنا وقت بھی آئے گا“ اور ایک مردہ مجنون شخص کا چڑا منہ ان کی بھرم باز ی کا نوحہ پڑھنے لگے۔ اور یہ کام چلاؤ اب ترقی پسند، ترقی یافتہ، مہذب بنے دو مردہ نوحہ خواں کے ساتھ مگر مچھ کے آنسو بہانے لگے۔ یہی اکیسویں صدی کا ترقی پسند کامیاب پاکستانی معاشرہ ہے اور کامیاب نوجوانوں کا نوحہ کڑوا سچ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).