درد کی نیاز


مانا کہ خدا کے سب پیارے اپنے نفس، اپنی ذات کو فنا کر کے باقی ہیں۔ مانا کہ پنجتن کا مقام عقل سے بلند ہے۔ ہاں مگر ماں کیا کرے۔ جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے ہوئے جسموں پر بی بی فاطمہ کی مامتا تڑپی تو ہو گی۔ ماں تو ماں ہے، بشر ہے، تخلیق ہے، خدا جیسی بے نیاز تو نہیں، اس کی مامتا تو دیوانی ہے، کسی دان کا کوئی خراج کہاں مانگتی ہے۔

خالق بھی عجب رنگباز ہے۔ خود میں پنجتن کو سمو کر اپنی خدائی کے ہاتھوں پنجتن کو ہی درد دے بیٹھا، اور اب من چلوں میں درد کی نیاز بانٹتا ہے۔

کچھ تو روح کے پرتو سے دل میں دھڑکتے اللہ کے نغمے میں شامل ہوتے درد کے ہاتھوں آنسوؤں سے ماتم کرتے ہیں۔ ہچکیاں گھونٹ کر اندر ہی اندر بلکتے ہیں۔ اور کچھ اطہر لاشوں پر لگے ایک ایک زخم کو خود پر نقش کرتے ہیں، لہو رنگ ہو کر سینہ کوبی کرتے ہیں۔

بی بی فاطمہ کے خدا کا درد سے گہرا تعلق ہے۔

اب جن کے دلوں میں خدا دھڑکن بن کے دھڑکا ہی نہیں، یا وہ جنہوں نے رسول اور آلِ رسول سے کوئی واسطہ رکھا ہی نہیں وہ اس درد کی اساس کو کیسے پہچانیں گے۔ نیاز ہر کسی میں نہیں، نیازمندوں میں بٹتی ہے۔

ثوابوں اور مصلحتوں کے ترازو سنبھالے نفسی نفسی کا راگ الاپتے اکثر بیوپاریوں کا خدا اور خدا کی خدائی سے ہر رشتہ خود غرض ہے۔ انکا معبود خدا نہیں ان کی اپنی ذات ہے، اپنا نفس ہے، جبھی تو کوئی اپنی غرض کو قبلہ بنائے جنت کی پرستش کر رہا ہے تو کوئی اپنی ہوس کو کعبہ بنا کر حوروں کا متمنی ہے۔

معبود واحد ہے تو اس سے رشتے کی اساس میں غرض کے اتنے بت کیسے کھڑے ہیں۔ کسی کو حاجی کہلانا ہے تو کسی کو عالم، مُلا اور نمازی۔ جو مقامِ حسین کو پہچانتے ہی نہیں وہ بھلا حسینی کیوں کہلائیں گے۔

نماز، روزے، ہر ایک عبادت اور مذہبیت سے بڑھ کر خدا اور اس کی خدائی سے بے غرض لگاؤ، بنا کسی مصلحت کے بے مثال حق پرستی و بے خوفی کا نام حسینیت ہے۔ ہزاروں کے جنگجو لشکر کے سامنے 72 افراد کے بے خوف انکار کا مقام یہ کیا جانیں۔

اڑاتے رہیں نیازمندوں کا مذاق، کہ لیں انہیں رنگباز۔ یہ ”رنگبازی“ بالشتیوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).