سہیل احمد خان اور ہمارا تہذیبی حافظہ


لکھنو میں مطبع نولکشور کا قیام انقلاب آفریں ثابت ہوا۔ مطبع نے داستان امیر حمزہ کو چھیالیس ضخیم جلدوں میں شائع کر ڈالا۔ اس طرح جو داستان گو تھے وہ داستان نویس بن گئے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جو داستانیں وہ سناتے تھے وہ چھپ کر محفوظ ہو گئیں۔ ”بوستان خیال“ ایک اور داستانی سلسلہ ہے جو اٹھارویں صدی میں لکھا گیا۔ افسوس یہ ہے کہ نولکشور نے صرف تین داستان گوؤں کا کا م شائع کیا اور دوسروں کو نظر انداز کر دیا۔ بہت سی داستانیں مختلف کتب خانوں میں آج بھی موجود ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ذخیرہ سابق ریاست رام پور (بھارت) میں ہے۔ ان غیر مطبوعہ داستانوں کا تنقیدی یا تحقیقی جائزہ لینے یا ان کو مدون کرکے شائع کرانے پر آج تک توجہ نہیں دی گئی۔

انیسویں صدی کا نصف آخر گویا داستانوں کا سنہرا دور تھا۔ داستان امیر حمزہ ( 1850 سے 1917) اور بوستان خیال کے طویل سلسلوں کی اشاعت اس امر کی پختہ دلیل تھی کہ ان کے قارئین برصغیر میں بڑی تعداد میں موجود تھے بیسویں صدی کے ساتھ ہی داستان کی صنف کا زوال شروع ہو گیا داستان گو اور داستان نویس تو موجود تھے لیکن ان کا لکھا شائع نہ ہو سکا۔ خود دہلی میں میر باقر علی موجود تھے لیکن کسی نے میر باقر علی سے داستان لکھوا کر شائع کرنے کی زحمت نہ کی۔

مغرب سے مرعوبیت کی ابتدا تو 1857ء میں جدو جہد آزادی کی ناکامی کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ سب سے پہلے مروج اردو شاعری پر نکتہ چینی ہوئی اور اسے فرسودہ، پر از تکرار اور غیر حقیقی سے قرار دیا گیا۔ داستانوں پراس قدر سختی سے تنقید نہیں ہوئی اس کا سبب یہ تھا کہ شاعر کو اہم سمجھا جاتا تھا داستانوں کو بہت سے لوگ ادب کا حصہ بھی قرار دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ بیسویں صدی میں دنیا تیزی سے بدلی۔ پہلی عالمی جنگ کے آشوب کے بعد روسی انقلاب کے نتیجے میں یہ تصور عام ہو گیا کہ ادب سے معاشرے کو بدلنے اور انقلاب کی راہ ہموار کرنے کا کام کیا جانا چاہیے۔

اس کے لئے کڑی حقیقت پسندی کو ضروری سمجھا گیا۔ پرانے قصوں اور داستانوں کو رجعت پسند معاشرے اور طبقہ امراء کا دل بہلاوا سمجھ کر گردن زدنی ٹھہرایا گیا۔ داستانوں پر الزام لگا کہ وہ فرضی واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پلاٹ کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتیں، کردار یک رخے اور اکہرے ہوتے ہیں اور کبھی بدلتے نہیں۔ طوالت اور فضول تکرار بہت ہے اور جہاں تک افادیت کا تعلق ہے تو داستان سے اس کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ترقی پسند ادب کی تحریک کی مقبولیت نے جس کے نزدیک ادب کا واقعیت پسند اور افادیت پسند ہونا لازمی تھا، داستانوں کو ادب کے دائرے سے تقریباباہر دھکیل دیا۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں بعض نقادوں کو احساس ہوا کہ اردو کا داستانی سرمایہ نہ صرف ادب کا حصہ ہے بلکہ ادبی اہمیت کا حامل بھی ہے اسے بے دردی سے نظر انداز کیا جانا بڑی جہالت ہو گا۔ سب سے پہلے کلیم الدین احمد نے داستانوں کے دفاع میں ایک پر مغز کتاب لکھی۔ اس کے بعد محمد حسن عسکری نے طلسم ہوش ربا سے ایک مختصر انتخاب شائع کیا۔ اس انتخاب سے یہ دکھانا مقصود تھا کہ داستان گو محض خیالی دنیا کی باتیں نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے ارد گرد کی حقیقی دنیا کو بھی بڑی باریکی سے دیکھا تھا۔

اس کے بعد رفتہ رفتہ داستانوں سے جو بے پروائی برتی جاتی تھی وہ کم ہوتی گئی، خود ترقی پسند تحریک بھی کمزور پڑ چکی تھی۔ اور ادب کی تفہیم کے نئے زاویے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اس میں داستانی ادب کا اپنے پڑھنے والوں پر بڑا قرض تھا جس کی ادائیگی مضامین کی صورت میں سامنے آرہی تھی۔ محمد سلیم الرحمن نے بیتال پچیسی پر ہائینرخ زمرکے مضمون کا ترجمہ ”شر پر روح کی فتح“ کے عنوان سے کیا۔ محمد حسن عسکری، شمیم احمد، شمیم حنفی، عزیز احمد، جیلانی کامران، انتظار حسین، محمد کاظم، مظفر علی سید نے مضامین کی صورت میں داستانوں کو اپنی تنقید کا مرکز بنایا

سہیل احمد خاں نے ان تمام ناقدین سے ہٹ کر اپنے لئے ایک علا حدہ راستہ چنا۔ ایسا راستہ جس کی نشانیاں وہ خود ہی جانتے تھے۔ ایسانہیں کہ انہوں نے اپنے پیشروؤں کے کام کو دیکھا نہ ہو۔ سہیل احمد نے نہ صرف یہ مضامین پڑھے بلکہ بعض نقادوں کے مضامین پر اپنی رائے بھی ظاہر کی۔ ایک مضمون، جو جیلانی کامران نے لکھا تھا اور سہیل احمد خان نے اس کی تعریف بھی کی مگر جہاں پر جیلانی کامران جدیدیت کا شکار ہوئے اس مقام کے متعلق بھی بتایا کہ وہ مذہب عشق میں تاج الملوک کے عورت بننے کو جنس سے آزادی اور حبشی کے روپ میں آنے کو رنگ اور نسل کی قید سے چھٹکارا قرار دیتے ہیں۔ سہیل احمد خان نے ان خیالات کا متنی سیاق و سباق تلاش کیا اور بتایا کہ تاج الملوک ان اعمال کو اپنے لئے باعث ندامت قرار دیتا ہے اور جو عمل باعث شرمندگی ٹھہرے اس کا احساس تفاخر سے نہیں جوڑا جا سکتا۔

سہیل احمد خان نے کایا کلپ کو دانش کے بڑے سوتوں کے ساتھ جوڑا اور اس کی جڑیں وجودی معاملات سے جوڑیں۔ داستانی ادب کی کایا کلپ کے اثرات کافکا، آئینسکو اور اردو ادب میں انتظار حسین کی دو کہانیوں آخری آدمی اور کایا کلپ سے تلاش کیے۔ ہیرو کے حوالے سے ایک علاحدہ انداز نظر دیا۔ سہیل احمد خان نے جوزف کیمپ بل کی کتاب ”A hero with a thousand faces“ کو متوازی رکھ کر کی ہیرو کی معنویت پر روشنی ڈالی۔

یہ تنقی ددرج بالا کتابوں کے خلاصے نہیں بلکہ ان کا پورا متنی سیاق و سباق موجود ہے جس کی وضاحت حواشی میں نظر آتی ہے۔ سہیل احمد خان کے ہاں مشرقی اور مغربی حوالے اپنے باطن میں ایک گہری رمزی دنیا لئے ہوئے ہیں۔ مگر ضرورت اسے جاننے کی ہے۔ اپنی آنکھوں سے تعصب کا چھلکا اتار کر متن کے ساتھ رشتہ قائم کرنے کی ہے۔

آخر میں ایک بات کہ ٹھیک ہے مغرب کا تخلیقی و تنقیدی سرمایہ عروج پر ہے لیکن مشرقی لوگوں کے لئے ایک بات وجہ افتخار رہے گی کہ آنتوان گیلان اگر الف لیلہ کا ترجمہ نہ کرتا تو شاید مغرب میں ٹالکین، ہیری پوٹر اور شرلک ہومز کے ناول اس قدر شہرت حاصل نہ کر پاتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ داستان امیر حمزہ، بوستان خیال اور الف لیلہ کو ہم اپنے مطالعات کا مرکز بنائیں۔ چھوٹے قصے جن میں ”طلسم فصاحت“، ”طلسم حیرت“، ”گلشن جاں فزا“، ”فسانہ دل فریب“، ”گلشن نوبہار“ اور پتا نہیں کتنے قصے دوبارہ اشاعت کے منتظر ہیں انہیں چھاپیں یہی ڈاکٹر سہیل احمد خان کی خواہش تھی اور یہی عمل خیر کا تسلسل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2