جانور راج: عظیم لیڈر نپولین
(جارج آرویل، مترجم: آمنہ مفتی)
چند روز بعد، جب گردن زدنیوں سے پھیلی دہشت، ختم ہوئی، کچھ جانوروں کو یاد آیا، یا انہیں لگا کہ انہیں یاد آیا کہ چھٹا نکتہ یہ کہتا تھا، ”کوئی بھی جانور، کسی بھی جانور کو قتل نہ کرے“۔ اور گو کہ کسی نے یہ بات سؤروں اورکتوں کے کان میں ڈالنے کی ضرورت محسوس نہ کی، مگر یہ لگا کہ جو ہلاکتیں کی گئی ہیں وہ اس کے ساتھ لگا نہیں کھاتیں۔ کلوور نے بنجامن گدھے سے کہا کہ اسے چھٹا نکتہ پڑھ کر سنائے۔ اور جب بنجامن نے ہمیشہ کی طرح کہا کہ وہ ان معاملوں میں نہیں پڑنا چاہتا، وہ میوریل بکری کو لے آئی۔
میوریل نے اسے پڑھ کے سنایا، ”کوئی بھی جانور، کسی بھی جانور کو قتل نہ کرے، بے وجہ“۔ جانے کیسے اور کیوں کر، آخری دو الفاظ، جانوروں کے حافظے سے محو ہو گئے تھے۔ مگر اب انہوں نے دیکھا کہ قرار داد کے خلاف عمل نہ ہوا تھا؛ واضح طور پہ ان غداروں کو مارنے کی ایک ٹھوس وجہ موجود تھی جنہوں نے سنو بال کے ساتھ گٹھ جوڑ کی تھی۔
پورا سال جانوروں نے اس سے بھی زیادہ محنت کی جتنی انہوں نے پچھلے سال کی تھی۔ پون چکی کی تعمیرِ نو، پہلے سے دگنی موٹی دیواروں کے ساتھ، اور مقررہ وقت پہ ختم کرنے کے لئے، اور اس کے ساتھ ہی روزمرہ کا فارم کا کام، ایک کڑی مشقت تھا۔ ایسے وقت آئے جب جانوروں کو لگا کہ انہوں نے طویل وقت کام کیا اور کھانے کو اس سے زیادہ نہ پایا جو جانی صاحب کے زمانے میں پایا۔ اتواروں کی صبح چیخم چاخ، اپنے کھروں میں کاغذ کا لمبا پنا تھامے، اعداد و شمار کی فہرست گنا کرتا تھا جن میں، خوراک کی ہر نوع کی پیداوار میں دو سو فیصد، تین سو فیصد یا پھر موقعے کی مناسبت سے پانچ سو فیصد اضافہ ثابت کیا جاتا تھا۔ جانوروں کو اس پہ یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہ آئی خاص کر جبکہ وہ واضح طور پہ یاد ہی نہ کر سکتے تھے کہ انقلاب سے پہلے کیا حالات تھے۔ اس کے باوجود، ایسے دن بھی آتے تھے جب وہ محسوس کرتے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر جلد ہی انہیں کم اعداد و شمار اور زیادہ خوراک ملے۔
تمام احکامات، اب چیخم چاخ یا ایک دوسرے سؤر کے ذریعے ہی دیے جاتے تھے۔ نپولین خود تو عوام میں کبھی ہفتے، پندھرواڑے نکلا کرتا تھا۔ اور جب کبھی وہ نکلتا تھا، اس کے ساتھ اس کی معمول کے کتوں کا دستہ تو ہوتا ہی تھا مگر ایک سیاہ مرغ بھی ہمراہ ہوتا جس کا کام ایک نقیب کا سا ہوتا تھا جو کہ نپولین کے خطاب سے پہلے، ایک بلند ”ککڑوں کوں اوں اوں“ کی صدا لگاتا تھا۔ فارم ہاؤس میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ نپولین دوسروں سے الگ کمروں میں رہتا تھا۔ وہ اپنے کھانے تنہا کھاتا تھا جبکہ دو کتے اس پہ مستعد ہوتے تھے اور ہمیشہ کراؤن ڈربی (بون چائنہ) کے ڈنر سیٹ میں کھاتا تھا جو کہ نشست گاہ میں شیشے کی الماری میں سجا رہا کرتا تھا۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر سال دوسرے دو قومی دنوں کے ساتھ ساتھ، نپولین کی سالگرہ پہ بھی بندوق کی سلامی دی جائے گی۔
نپولین کو اب فقط نپولین نہیں کہا جاتا تھا۔ اسے، رسمی انداز میں ’ہمارے لیڈر، کامریڈ نپولین‘ پکارا جاتا تھا اور یہ سؤر، اپنے لئے ایسے القاب جیسا کہ اتا الوحوش، دہشتِ انسانیت، بھیڑوں کے گلے کا محافظ، بطخوں کا رفیق وغیرہ ایجاد کرنا پسند کرتا تھا۔ اپنی تقریروں میں چیخم چاخ، آنسو بہا بہا کر نپولین کی سمجھداری، اس کی دل کی اچھائی اور اس عمیق محبت کا ذکر کیا کرتا تھا جو کہ اس کی دل میں ہر جگہ کے مظلوم جانوروں کے لئے پائی جاتی تھی، حد یہ کہ بلکہ خاص کر ان مظلوم جانوروں کے لئے جو اب بھی دوسرے مزرعوں پہ جہالت اور غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔
ہر تیر اور ہر تکے پہ نپولین کا نام لگا دیا جانا اب ایک معمول سا بن گیا تھا۔ آپ کو اکثر ایک مرغی دوسری سے کہتی ہوئی نظر آتی ہو گی، ”ہمارے عظیم الشان لیڈر کی رہنمائی میں میں نے، پانچ دن میں چھہ انڈے دیے“ ؛یا دو گائیں، پیاؤ پہ پانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، اظہار کرتیں، ”کیسا مزے دار پانی ہے، شکریہ کامریڈ نپولین! “ فارم کے عمومی جذبات جناب عاجز گھٹنوی صاحب کی اس نظم کے بولوں سے عیاں ہیں، جو کہ کچھ یوں ہے کہ:
یتیم و بے نوا کے دوست! اے میرے نپولین!
دکھی دلوں کے واسطے تو چشمۂ حیات ہے
تو ہے عظیم دیوتا، خواص اور عوام کا
تیری نگاہ میں جھلک ہے چین اور قرار کی، مکمل اختیار کی
سو تجھ کو دیکھتے ہی میری روح میں
بھڑک اٹھی ہے روشنی جنون کے شرار کی
میرے لئے تو ایسے ضوفشاں ہے تو
کہ جیسے آسمان پہ آفتاب ہو کرن کرن
میرے عظیم و بے بدل نپولین!
تری سخاوتوں سے ہے تری رعایا کو بہم
بقدر شوق و آرزو ہر ایک شے ؛
روزانہ دو دفعہ بھرا پرا شکم
سکوں کے لئے ہے بستر گیاہ و خس
کہ جس پہ سوتے ہیں تمام جانور،
تری نظر ہے نگہباں، بھلے ہو دشت یا چمن
مرے عظیم و بے بدل نپولین!
ہمارے ہاں تو جب بھی ایک جانور کا ہو جنم
تو اس کو چاہیے کہ اپنے بچپنے میں سیکھ لے
ترے عظیم در سے عمر بھر وفاؤں کا چلن
سو پہلی بار بولے تو یہی ہو اولیں سخن
”میرے عظیم و بے بدل نپولین!
(منظوم ترجمہ: رحمان فارس)
- جانور راج! مت کیجیو اعتبار ہستی، ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ آخری قسط - 08/06/2020
- جانور راج! – فارم کیسا بن گیا؟ - 29/05/2020
- جانور راج! باکسر کی یاد میں عشائیہ - 27/05/2020
- جانور راج: تبدیلی کا خواب
- جانور راج: میجر کی انقلابی تقریر
- جانور راج ؛ وحوشِ انگلستان کا ترانہ
- جانور راج : انقلاب آ گیا
- جانور راج۔ تبدیلی کا سات نکاتی منشور
- جانور راج: ”اب سب جانور کامریڈز ہیں“۔
- جانور راج- قیادت کے لئے کھانے پینے کی اہمیت
- جانور راج! تبدیلی کی ہوا چل پڑی
- جانور راج! انسانوں سے پہلی جنگ
- جانور راج۔ جنگ کے بعد
- اینمل فارم! پون چکی کا منصوبہ
- جانور راج: سنو بال کا فرار
- جانور راج: پون چکی ناگزیر ہے!
- جانور راج! کرپٹ انسانوں سے نجات کے بعد
- جانور راج: انسانوں سے تجارت کی شروعات
- جانور راج: پون چکی کی تباہی
- جانور راج: معاشی بحران اور مرغیوں کے انڈے
- جانور راج: سنوبال کی سازشیں
- جانور راج: باکسر کا اختلاف اور چیخم چاخ کا کینہ
- جانور راج: انقلاب دشمنوں کا قتل اور آزادی اظہار پر پابندی
- جانور راج: عظیم لیڈر نپولین
- جانور راج! ”مرگ بر انسان“ سے ”مرگ بر روفا جٹ“ تک
- جانور راج: روفے جٹ کی دغا بازی
- جانور راج: پون چکی کی تباہی
- جانور راج: کوئی بھی جانور زیادہ شراب نہیں پیئے گا!
- جانور راج: خوراک کی راشن بندی
- جانور راج: نئے ترانے اور اچانک مظاہرے
- جانور راج: انقلابی ہیرو باکسر، قصاب کو بیچ دیا گیا
- جانور راج! باکسر کی یاد میں عشائیہ
- جانور راج! – فارم کیسا بن گیا؟
- جانور راج! مت کیجیو اعتبار ہستی، ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ آخری قسط
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).