وزیراعلیٰ کا عزم اور پولیس کلچر!


پولیس تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ہلاکتوں کے پیش نظر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کے رویوں میں بہتری لا کر تھانہ کلچر کو تبدیل کریں گے پولیس نظام میں اصلاحات وقت کا اہم تقاضا ہے ملزمان پر پولیس تشدد کسی صورت برداشت نہیں کریں گے پولیس کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے عوام دوست بنائیں گے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے پولیس میں اصلاحات لانے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے اگر دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اس وطن عزیز کے شہر اقتدار میں بسیرا کرنے والے حکمرانوں کے اقتداری ایوانوں سے پولیس کلچر میں اصلاحات لانے کے حوالے سے دیے جانیوالے بیانات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے لیکن بد قسمتی سے 1861 ء سے بننے والے محکمہ پولیس میں اصلاحات کے حوالے سے دیے جانے والے بیانات ’اعلانات اور دعوؤں کی تکمیل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

وزیر اعلی پنجاب کی نیت اور عزم پر شک کی گنجائش نہ بھی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک میں جب بھی پولیس کا روایتی تشدد فرشتہ اجل بن کر ملزم کو منوں مٹی تلے ابدی نیند سلا دیتا ہے اور اس کی ہلاکت بریکنگ نیوز بن کر اس فرسودہ نظام پر سوالات اٹھاتی ہے تو حکومت کی جانب سے اعلیٰ سظحی اجلاس ’گرفتاریاں‘ معطلیاں اور انکوائری کمیٹیاں بنتی ہیں اس کلچر کو تبدیل کرنے کے لئے بڑے زوردار بیانات اور دعوے کیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد رات گئی بات گئی کے مترادف ایسے واقعات ماضی کا حصہ بن کر اس فرسودہ نظام کو مزیدتقویت دینے کا باعث بنتے ہیں۔

معاشرے کا کوئی بھی فرد جس کا رشتہ جرم سے جڑا ہے وہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے کسی ناسور سے کم نہیں لیکن اس کی سزا کے لئے قانون اور عدالتوں کا ایک نظام موجود ہے جس پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی پولیس تشدد کا کوئی سنگین واقعہ ملک میں رونما ہوتا ہے تو صرف اس واقعہ میں ملوث افسر یا اہلکاروں کو معطل یا حوالات میں بند کر کے اس کلچر میں اصلاحات نہیں لائی جا سکتی اور نہ ہی انہیں میں قصور وار سمجھتا ہوں جس نظام کے تحت وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں وہ فرسودہ نظام بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے جو آج تک کسی حکومت نے بھی اس کلچر میں عملی اصلاحات لا کر پولیس اور عوام کے درمیان قائم خلیج کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی اسی وجہ ہے کہ آج بھی ایک شریف سائل تھانے میں داخل ہوتے ہی اپنے آپ کو ایک مجرم تصور کرتا ہے ایک عام سائل کی یہ سوچ اس نظام پر عدم اعتماد ہے پولیس کلچر عملی طور پر اسی وقت تبدیل ہو گا جب عوام اور پولیس کے درمیان رابطوں اور تعاون کے فقدان کو ختم کیا جائے گا۔

جب عوام اور پولیس کے درمیان تعاون کا رشتہ مضبوط ہو گا تو معاشرے سے جرم اور جرائم پیشہ افراد کے تدارک میں آسانی ہو گی۔ جدید ٹیکنالوجی اور اختیارات سے لیس پولیس فورس کو عوام دوست بنانے کی راہ میں کون سے محرکات حائل ہیں محکمہ کی استعداد کار میں مثبت اضافہ ’فلاح و بہبود‘ اصلاحات ’امن عامہ کے قیام اور سائل کو بلا تعطل انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ہر سال بجٹ میں خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود پولیس نظام عام آدمی کو اعتماد نہیں دے سکا۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سابقہ حکومتوں کے ادوار میں کس طرح سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے پولیس کو بی ٹیم بنا کر آلہ کار بنایا گیایہی وجہ ہے کہ یہ ملک ایک پولیس اسٹیٹ بن گیا اس وقت پوری دنیا میں اسکارٹ یارڈ لینڈ پولیس کی یہ روایت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی مقدمہ یا کیس میں کسی قسم کا بھی سیاسی دباؤ قبول نہیں کرتی۔ مغرب کے پولیس نظام کو پرکھ لیں وہاں کا پولیس نظام مکمل طور پر غیر سیاسی ہے بھرتی کا عمل شفاف اور حکمران پارٹی کے لئے کوئی کوٹہ مختص نہیں ہوتالیکن اس کے برعکس پاکستان میں ہمیشہ اہلیت کو نظر انداز کر کے شفافیت کے عمل کو گہنایا گیاحکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے اسے استعمال کیا۔

1997 ء میں پنجاب پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل سردار محمد خان مرحوم کی کتاب (The Ultimate Crime) شائع ہوئی اس کتاب میں وہ ایک جملہ لکھتے ہیں کہ اگر پولیس کی کارکردگی بہتر بنانی ہے تو اسے اعتماد دینا ہو گا اس کا مورال بلند کرنا ہو گا۔ المیہ یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے اصلاحات کے نام پر ایسے اقدامات اٹھائے جن سے پبلسٹی اور پیسہ کمانا مقصود تھاجس کے باعث محکمہ پولیس کی کارکردگی ہمیشہ سوالات کی زد میں رہی اور اصلاحات کے نام پر اٹھائے جانیوالے نام نہاد اقدامات عوام اور پولیس کے درمیان دوستی کا رشتہ استوار نہ کر سکے۔

سابقہ حکومت کی پولیس اصلاحات کے حوالے سے جو کارکردگی ہے وہ انسانی حقوق کمیشن کی پڑھ لیں پنجاب میں جنوری 2014 ء سے 2018 ء تک جتنے پولیس مقابلے ہوئے ان مقابلوں میں 3345 افراد کو ہلاک کیا گیا جن کی اوسطاسالانہ تعداد 669 بنتی ہے پانچ سال کے دوران پچاسی اہلکار ان مقابلوں کے دوران مارے گئے اس کے باوجود یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم اس محکمہ کے نظام پر دستک دے رہا ہے کہ یہ مقابلے اصلی تھے یا جعلی ’حقائق یہ ہیں کہ پولیس کی شہرت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اصل مقابلوں کو بھی عوام شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔

پولیس آرڈر 2002 ء کا مقصد پولیس کو جوابدہ ’خود مختار‘ پیشہ ور اور سیاسی مداخلت سے پاک کرنا تھا لیکن یہ آرڈر بھی غیر مؤثر ہو گیا اگر تحریک انصاف کی حکومت پولیس کلچر میں اصلاحات لانے کے لئے پر عزم ہے تو پھر وفاق کو چاہیے کہ تمام صوبوں میں یکساں قانون اور حکمت عملی وضع کرے پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرے اگر سیاستدان پولیس کو حکم دیں گے تو پھر رول آف لاء کیسے قائم ہو گا۔ وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ جتنے بھی ان کے دور حکومت میں مقابلوں اور تشدد سے ہلاکتوں کے واقعات ہو چکے ہیں ان کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں تاکہ پولیس پر ریاستی آلہ کار لگنے کے الزام کا تاثر زائل ہو سکے پولیس اور سیاستدانوں کے ملاپ سے مظلوم کو انصاف نہیں مل پاتا۔

محکمہ پولیس کو مزید فعال بنانے کے لئے اہلیت کی بنیاد پر بھرتی کے عمل کو شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے قانون سازی کے ذریعے نا اہل کرپٹ افسر ان اور اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کیا جائے تاکہ ذیشان کاظمی ’عابد باکسر‘ نوید سعید اور راؤ انوار جیسے منفی کردار اس محکمہ کی کارکردگی کو نہ گہنا سکیں۔ اکیسویں صدی کے لاء اینڈ آرڈر اور جرائم سے متعلقہ چیلنجز سے احسن اور بھر پور طریقہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال نا گزیر ہے جب تک پولیس کے واچ اینڈ وارڈ اور انویسٹی گیشن نظام کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا تب تک معاشرے میں امن و امان کے قیام کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔

اگر موجودہ حکومت انگریز سے ورثہ میں ملے پولیس نظام میں اصلاحات کی اینٹ چننے میں کامیاب ہو گئی تو پھر معاشرے میں امن و امان کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سات دہائیوں بعد کیا وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس کلچر تبدیل کر کے معاشرے کو امن عامہ کے قیام کے ساتھ دنیا کے مہذب معاشروں کی صف میں لا کھڑا کریں گے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس بات کا ادراک ضرور ہونا چاہیے کہ ان کے عزم کے سامنے یہ چیلنج صبر آزما اور ایک مشکل مرحلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).