میں نے سنہ 65 کی پاک بھارت جنگ تہاڑ جیل، دہلی سے دیکھی


تین ستمبر کو جب لال بہادر شاستری نے اپنی نشری تقریر میں دلی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔

پانچ ستمبر کو جب یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اکھنور سے صرف چھ میل دور رہ گئی ہے تو اسی رات کو دیر گئے ہندوستانی فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کر کے لاہور کی سمت پیش قدمی کی۔

چھ ستمبر کو علی الصبح پاکستان ٹائمز کے نمائندےاسلم شیخ نے گھبرا کر ٹیلی فون کیا۔وہ اور ڈان کے محبوب العالم ذرا دور ڈیفنس کالونی میں رہتے تھے۔ دونوں لوک سبھا کے اجلاس سے پہلے میرے کمرے پر آگئے۔ اس دوران اے پی پی کے نمائندے خلیل بٹالوی بھی جو قریب پٹودی ہاوس میں رہتے تھے آگئے۔ وہ بیس روز پہلے ہی اپنے بیوی بچوں سمیت دلی آئے تھے۔ ہم نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ وہ فورا بیوی بچوں کو لے کر چانکیہ پوری میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت میں پناہ لے لیں۔

یہ اتفاق تھا کہ چند ماہ قبل پرانے قلعہ کے قریب پرانی فوجی بیرکوں میں بکھرے پاکستان ہائی کمیشن کے دفاتر چانکیہ پوری میں نئی عمارت میں جو ابھی زیر تعمیر تھی منتقل ہو گئے تھے۔

ہائی کمشنر میاں ارشد حسین کو جون سن پینسٹھ ہی میں خطرہ تھا کہ اپریل میں رن آف کچھ کے معرکہ میں ہندوستانی فوجوں کی شکست کے بعد ہندوستان، پاکستان کے خلاف انتقامی کارروائی کرے گا۔

ستمبر کی جنگ کے بعد میاں ارشد حسین نے مجھے بتایا تھا کہ در اصل لال بہادر شاستری نے تین جولائی کو انتقامی حملہ کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ملتوی کر دیا تھا۔

اس ملاقات میں میاں ارشد حسین نے رازداری کے وعدہ پر یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے چار ستمبر کو دلی میں ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان چھ ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔

بہر حال صبح ساڑھے دس بجے میں ، اسلم شیخ اور محبوب العالم ، لوک سبھا پہنچ گئے۔ مارننگ نیوز کے ٹونی مسکرہنس بھی ہانپتے کانپتے وہاں آگئے۔ ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کے ویت نام، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور سنگا پور اور نہ جانے کہاں کہاں سے امریکی اور دوسرے غیر ملکی صحافیوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔

وزیر دفاع وائی بی چوان نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ ہندوستانی فوج پنجاب پر پاکستان کے حملہ کے خطرہ کے پیش نظر سرحد پار کرے لاہور سیکٹر میں داخل ہو گئی ہے۔ اس اعلان پر پورے ایوان میں ہر طرف سے تالیوں کا ایسا شور اٹھا کہ جیسے ہندوستان نے جنگ جیت لی ہو۔

اس اعلان کے فورا بعد ہم سب چانکیہ پوری میں پاکستان ہائی کمیشن کی طرف دوڑے۔ ہم میں سے ایک جہاں دیدہ صحافی نے بالکل مختلف سمت پارلیمنٹ اسٹریٹ میں اپنے بنک کی راہ لی۔ ان کا یہ اقدام بڑا بروقت اور دانشمندانہ تھا کیونکہ اسی روز سارے پاکستانیوں کے بنک اکانٹ منجمد کر دیے گئے تھے۔

جب ہم پاکستان ہائی کمیشن پہنچے تو وہاں سخت ہل چل مچی ہوئی تھی اور ریڈیو پر ایوب خان کی تقریر سننے کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔

ایوب خان کی تقریر کے بعد میاں ارشد حسین نے سب صحافیوں سے کہا کہ اگر وہ باہر اپنی جان کو خطرہ محسوس کریں تو ہائی کمیشن میں پناہ لے سکتے ہیں۔

خلیل بٹالوی تو پہلے ہی اپنے بیوی بچوں سمیت ہائی کمیشن کی عمارت پہنچ چکے تھے۔ ٹونی مسکرہنس اور محبوب العالم نے بھی ہائی کمیشن منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اب رہ رگئے اسلم شیخ اور میں۔ ہم نے کہا کہ صحافی ہوتے ہوئے یہ مناسب بات نہیں ہوگی کہ جنگ کے پہلے ہی دن ہم چانسری کی عمارت میں چھپ کر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ ہم ہائی کمیشن سے واپس آگئے۔

دوسرے دن جب ہم لوک سبھا گئے تو دیکھا وزیر دفاع چوان ایوان میں نہیں ہیں۔ ہندوستانی صحافی دوستوں سے پوچھا کہ چوان کہاں ہیں تو ان میں سے کچھ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ لاہور گئے ہیں جہاں وہ جنرل چودھری کے ساتھ ہندوستان کے فتح مند فوجی دستوں کی سلامی لیں گے۔

آٹھ ستمبر کی دوپہر کو جب میں اور اسلم شیخ ہائی کمیشن کی عمارت سے نکلے تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ ہم دو رویہ ہیج میں چھپتے چھپاتےرائے سینا ہوسٹل کے قریب پہنچے تو راستہ میں اخبارات کے ضمیمے فروخت ہو رہے تھے۔ شہ سرخیاں تھیں ’لاہور فتح ہوگیا۔۔۔ اور ہندوستانی فوج کراچی سے پچیس میل کے فاصلہ پر پہنچ گئی‘

ہمارے حواس باختہ ہو گئے، اسلم شیخ نے سوالیہ انداز سے میری طرف دیکھا اور میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ہم نے فیصلہ کرلیا کہ ہم ہائی کمیشن ہی کا رخ کریں۔ اسلم شیخ ہوسٹل میں میرے کمرے میں آئے اور اپنے ملازم کو ٹیلیفون کیا کہ ایک بیگ میں ان کے کپڑے رکھ دے اور یہ کہ کر نیچے ٹیکسی لے کر اپنے مکان روانہ ہوگئے۔

اسلم شیخ کے روانہ ہوئے دو منٹ بھی نہیں گزر ے تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا سی آئی ڈی کے دو افسر کھڑے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیے۔ میں نے محسنہ سے کہا کہ تم ہائی کمیشن میں پریس قونصلر انصاری صاحب کو ٹیلی فون کر کے وہاں چلی جاؤ۔

سی آئی ڈی کے افسر مجھے اپنے ساتھ انٹیلی جنس بیورو کے دفتر لے گئے۔ جہاں انہوں نے مجھے انٹرنمنٹ آڈر دیا۔ یہ آرڈر دراصل سن باسٹھ میں چین کے ساتھ جنگ کے دوران تیار کیا گیا تھا جس کے تحت ہندوستان میں رہنے والے چینی باشندوں کو نظر بندی کیمپوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ مجھے جو حکم دیا گیا تھا اس پر چین کا نام کاٹ کر پاکستان لکھ دیا گیا تھا۔

میں سمجھا کہ اس حکم کے تحت مجھے گھر میں نظربند کر دیا جائے گا لیکن مجھے فورا تہاڑ جیل لے جایا گیا اور جیلر کے حوالہ کر دیا گیا جس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس انٹرنمنٹ آرڈر کے تحت وہ مجھے کس کلاس میں رکھے۔ اتنے میں بلیک آوٹ کا سائرن بجا۔ جیلر نے ہڑبڑا کر کہا کہ اسے قصوری چکیوں میں ڈال دو۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ یہ قصوری چکیاں کیا ہوتی ہیں۔ جب دور جیل کے ایک کونے میں ایک دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے ایک ’سینیر قیدی‘ کے حوالہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ جیل میں گڑبڑ کرنے والے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے قید تنہائی میں رکھنے کے سیلز ہیں۔

یہ لمبی داستان ہے کہ تہاڑ جیل میں قصوری چکیوں، سی کلاس اور بعد میں بی کلاس میں اکتوبر کے وسط تک دن کیسے گزارے جہاں پورے ہندوستان کے چین نواز کمیونسٹ رہنما قید تھے جن میں اے کے گوپالن، نمبودری پد اور سرجیت سنگھ بھی شامل تھے اور انہوں نے میری کیسی آؤ بھگت اور خاطر تواضع کی۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani