شمال کا حسن توجہ مانگتا ہے


گزشتہ ہفتے وادی کاغان جانے کا پروگرام بنا۔ لاہور سے بذریعہ موٹروے ایبٹ آباد سے 30 کلومیٹر پہلے شاہ مقصود تک کا سفر تو پرسکون رہا۔ اس کے بعد تقریباّ 6 گھنٹے کا وہی روایتی سفر، بے ہنگم ٹریفک اور قیام و طعام کی جگہوں کے فقدان جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فیملی کے ساتھ سفر کرتے وقت موٹروے کے انتخاب کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ راستے میں قیام و طعام کی سہولت موجود ہوتی ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں جہاں کم از کم آپ بچوں کے ہمراہ نسبتاّ صاف ستھرے واش رومز استعمال کرسکتے ہیں اور قدرے بہتر کھانے پینے کی اشیاء میسر ہوتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں جی ٹی روڈ پر ایسی سہولت سرے سے دستیاب نہیں ہے ماسوائے کھاریاں میں ٹی ڈی سی پی سٹاپ اوور کے۔ کسی حکومت نے شاید کبھی سوچا بھی نہیں کہ لمبے سفر کے دوران آپ کہیں رکنا پڑ سکتا ہے تاکہ آپ تھوڑا سستا لیں، تھکاوٹ بھی دور ہو جائے اور رفع حاجت بھی کرلیں۔ جی ٹی روڈ پر آپ کوچند ڈھابہ نما ہوٹلوں اور ریسٹورانٹس کے ناقابل استعمال اور بدبودار واش رومزہی استعمال کرنا پڑیں گے جو آپ کے سفر کا مزہ کرکرا کردیں گے۔

ایبٹ آباد سے بابوسرٹاپ کے راستے میں مانسہرہ، بالاکوٹ، کوائی، کاغان، ناران، جل کھنڈ اور لولوسر کے علاقے آتے ہیں دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ راستہ قدرے بہتر ہے مگر بے شمار جگہوں سے سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کسی جگہ کوئی آرام گاہ قائم نہیں کی گئی جہاں آپ چند لمحے رک سکیں۔ سڑکوں پر سائن بورڈز لگے ہیں مگر یک دم کسی علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو صرف دکانوں پر لگے بورڈز سے معلوم ہوگا کہ آپ کس علاقے سے گزررہے ہیں۔

لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی نمبر پلیٹس والی گاڑیاں سب سے زیادہ تعداد میں نظر آئیں گی اور سب سے زیادہ برے طریقے سے گاڑیاں بھی یہی لوگ چلاتے ملیں گے۔ ہر موڑپر جہاں سڑک جھرنوں اور آبشاروں کے پانی کی وجہ سے خستہ حال ہیں اور لوگ ایک قطار کی صورت میں گاڑیاں آہستہ آہستہ گزاررہے ہوں گے وہیں بعض گاڑی سوار دوسری لائن میں داخل ہوکر تیزی سے آگے گزرنے کی کوشش میں راستے بلاک کردیں گے۔

ناران کی خوبصورت وادی میں چند اچھے ہوٹلوں کا قیام ایک خوشگوار حیرت تھی۔ اردگرد خوبصورت پہاڑوں کے بیچ سے بہتا دریائے کنہار سیاحوں کو مسحور کردیتا ہے۔ مگر رات کو بازار میں ہارن بجاتی گاڑیاں ایک پر سکون ماحول کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بازار کی سڑک کی حالت دگرگوں ہے جہاں صفائی کو کوئی مناسب بندوبست نظر نہیں آتا نہ ہی کوئی پیدل چلنے کو راستہ ملے گا۔ فٹ پاتھ کی حالت انتہائی خراب ہے اور تجاوزات کی بھرمار ہے۔ بازار میں کہیں کوڑا دان نظر نہیں آتے تاکہ لوگ بازار میں گندگی نہ پھیلائیں۔

ناران کی سب سے خوبصورت جھیل سیف الملوک کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے اور صرف خصوصی جیپ کے ذریعے ہی جھیل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

جھیل کے کنارے نہ تو کہیں بیٹھنے کا بندوبست ہے اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام۔ جھیل کی طرف دیکھیں تو قدرت کا حسین تحفہ، آسمان کو چھوتے برفیلے پہاڑ اور جھیل کا شفاف پانی جبکہ دوسری جانب نظر دوڑائیں تو گندگی ہی گندگی۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے قدرت کے اس شاہکار کو بالکل نظرانداز کررکھا ہے۔

دنیا بھر میں جھیلوں کے کنارے خوبصورت بینچ اور مضبوط چھتریاں نسب کی جاتی ہیں جہاں بیٹھ کرسیاح قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک کے کنارے پر اگر یک دم بارش شروع ہوجائے تو بھیگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ ڈھابا نما ریسٹورانٹس تک پہنچنے کے لیے بڑے بڑے پتھروں پر بھاگ کر جانا ہو گا۔

پاکستان کے شمالی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں۔ دلفریب اور محسور کن نظارے سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح جوک در جوک پہنچتے ہیں۔ دہشت کردی کی لہر کم ہونے کے بعد یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کو شعور دلانے کے لیے انتہائی جارحانہ آگاہی مہم چلانا ہوگی اور ان علاقوں میں مناسب سہولیات دیے بغیر سیاحت کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).