کرسچین میرج ایکٹ، غیر ضروری بحث اور گلے کی ہڈی


اسے حکومت کی حکمت عملی سمجھ لیں یا پھر چالاکی کہ کابینہ کے اجلاس میں کرسچین میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ 2019 خاموشی سے منظور کر وا لیا گیا کیونکہ اس بات کا قوی امکان تھا کہ اگر منظوری سے قبل اس ایکٹ کا مسودہ مارکیٹ میں آگیا تو اس پر رد عمل آسکتا ہے جس کے نتیجے میں معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتاہے۔ کابینہ سے ایکٹ کی منظوری تک تو حکومت کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے مگر اب اسے پارلیمنٹ تک بھجوانا اورمنظور کروانا ایک مشکل کام نظر آرہا ہے۔

کیونکہ وفاقی کابینہ سے مجوزہ ایکٹ کی منظوری کا پتہ چلتے ہی مسیحوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیاہے۔ مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایکٹ کی منظوری سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی گئی ایکٹ کی بعض شقیں مذہبی احکامات کے منافی ہیں اس لئے اس ایکٹ کو منظور نہیں کیا جانا چاہیے۔

کرسچین میرج اور ڈایورس ایکٹ میں تبدیلی کے لئے کارروائی کا آغاز گزشتہ حکومت کے دور میں ہوگیا تھا۔ موجودہ حکومت کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ جو ایکٹ کابینہ نے منظور کیا گیاہے کہ وہ مختلف چرچز کے سربراہان کی مشاورت سے تیار کیا گیاہے ’اس ایکٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا سمیت ہر فورم پر بحث جاری ہے‘ سنجیدہ حلقوں کی جانب سے تو مجوزہ ایکٹ کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ جو شقیں مذہبی احکامات کے متصادم ہیں ان پر نظر ثانی کرکے ایکٹ کو پارلیمنٹ میں بحث کے لئے بھجوایا جائے کیونکہ انگریز کے دیے ہوئے ڈیڑھ سو سالہ کرسچین میرج اور ڈائیورس ایکٹ میں تبدیلی وقت کی ضروری ہے تاہم روایتی سوچ رکھنے والے افراد جن کی کہ اکثریت زیادہ ہے انگریز اور ضیاء الحق کے رائج کردہ ایکٹ کو خدائی قانون قرار دیتے ہیں اور اس ایکٹ میں رتی بھر ترمیم نہیں چاہتے۔

حالانکہ اس رائج ایکٹ میں کئی ایسی باتیں موجود ہیں جن کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ جسے یہ لوگ خدائی قانون قرار دے رہے ہیں اس کے مطابق اگر کسی شخص کی بیوی کے ساتھ بدکاری ہوئی ہو تو وہ شخص عدالت میں بدکاری کرنے والے سے معاوضہ طلب کر سکتا ہے۔ کیا یہ شق مذہبی احکامات سے مطابقت رکھتی ہے؟ ان حلقو ں کی جانب سے مجوزہ ایکٹ کے حوالے سے غیر ضروری بحث کا آغاز بھی کردیا گیاہے گرجا گھروں میں عبادات کے دوران لیکچرز دیے جا رہے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ ایکٹ کی منظوری خلاف مذہب اقدام ہے۔

مذہبی حوالہ جات کو حسب منشاء پیش کرکے بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر یہ ایکٹ منظور ہوگیا تو تباہی آجائے گی اور مسیحی خاندانی زندگی برباد ہو جائے گی۔ کئی گرجا گھروں کے سربراہان کی جانب سے اشتہاری مہم بھی شروع کردی گئی ہے۔ گرجا گھروں کے باہر پینا فلیکس آویزاں کردیے گئے ہیں جن پر ”کرسچین میرج اینڈ ڈایورس ایکٹ نامنظور“ کے نعرے درج ہیں۔ اب نظر یہ آرہا ہے کہ اس ایکٹ کے حوالے سے جس طرح شروع کردی گئی ہے یہ ایکٹ اب حکومت کے لئے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے جسے نہ نگلا جا سکتا ہے نا اگلا جا سکتاہے۔

کچھ مسیحی رہنماؤں کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ انہیں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کابینہ سے مجوزہ ایکٹ پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے نہیں بھجوایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ امرنہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے سبکی کا باعث ہوگا بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی جانب سے بھی حکومت کو ہدف تنقید بنایا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت نے کسی دباؤ میں آئے بغیر بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے لیگل ریفارمز کا اعلان کر رکھا ہے۔ اور اس سے یہ تاثر بھی ملے گا حکومت قانون سازی اور دیگر معاملات کے حوالے سے مذہبی حلقوں کے دباؤ میں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).