گھوٹکی میں حملے، تیل کی قیمتیں اور مودی کے خلاف عمران خان کا مقدمہ


پاکستان کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے علاوہ اب گھوٹکی میں اپنی ہندو اقلیت کی حفاظت کے چیلنج کا سامنا کررہا ہے جبکہ دوسری طرف پوری دنیا حیرت اور پریشانی سے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ روز آرامکو تنصیبات پر ڈرون یا میزائل حملوں کے بعد سعودی عرب کی تیل پیداوار نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔

اس ناگہانی صورت حال کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں دس فیصد تک فوری اضافہ ہؤا ہے۔ سعودی عرب کی تیل پیدا وار جلد بحال نہ ہونے یا مشرق وسطیٰ میں کسی قسم کے تصادم کی صورت میں عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ صورت حال دو حوالے سے تکلیف دہ حد تک نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا فوری اثر ملک کی معیشت پر مرتب ہوگا اور پاکستان کی سنگین مالی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں کسی تصادم کی صورت میں کشمیر کو عالمی ایجنڈے پر نمایاں جگہ دلوانے میں پاکستان کو مزید مشکل کا سامنا ہوگا۔

گھوٹکی میں ہندوؤں کی املاک کو نقصان پہنچانے اور ایک مندر کو تباہ کرنے کے الزام میں پولیس نے تین مقدمات میں دو سو سے زائد افرد کو نامزد کیا ہے۔ جبکہ ایک پرائیویٹ اسکول کے مالک نوتن لال کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس ریٹائرڈ پروفیسر پر ان کے نجی اسکول کے ایک 14 سالہ طالب علم نے رسول پاک ﷺ کے خلاف نازیبا گفتگو کرنے کا الزام لگایا تھا۔ مختلف عناصر کے اشتعال دلانے پر لوگوں کے ہجوم نے ہندو آبادیوں اور کاروبار پر حملے شروع کردیے۔

اب حکومت سندھ اور بعض مذہبی رہنماؤں کی مداخلت اور اپیل پر اگرچہ گھوٹکی میں حالات معمول پر آنا شروع ہوئے ہیں لیکن گرفتار استاد پر ایک 14 سالہ طالب علم کے الزام پر مقدمہ قائم کرنے کا عمل اور انہیں توہین مذہب کے سنگین الزامات میں قید رکھنے کا طریقہ، کشمیری مسلمانوں کے بارے میں پاکستان کے مقدمہ اور نریندر مودی اور بی جے پی کی ہندو انتہا پسندی کے خلاف عمران خان کے مؤقف کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

ہمسایہ ملک پر ہندو مذہبی جذبات کو انگیختہ کرنے اور کشمیر میں مسلمان اکثریت کی وجہ سے جبر و ظلم کا سلسلہ جاری رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان کو یہ بھی دکھانا ہو گا کہ اس کے اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ انصاف اور قانون کے مطابق سلوک کیا جارہا ہے۔ ایک معمر تعلیم یافتہ استاد اور ریٹائرڈ ہندو پروفیسر پر ایک کم سن طالب علم کے الزام میں توہین رسالت کا سنگین الزام عائد کرنے کا طریقہ بجائے خود تکلیف دہ ہے۔

اور اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ اقلیتی عقیدہ رکھنے والے پاکستان میں محفوظ ہیں۔ یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ غیر مسلم عقیدہ رکھنے والا کوئی بھی پاکستانی شہری اکثریتی آبادی کے مذہب یا مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کرے گا۔ کجا ایک ایسا شخص جس نے ساری زندگی درس و تدریس میں صرف کی ہو، اس پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ اس نے ایک کمسن طالب علم سے بات کرتے ہوئے رسول پاکﷺ پر کیچڑ اچھالنے کی جسارت کی ہے۔

پاکستان میں سابق فوجی آمر جنرل (ر) ضیا الحق کے عہد میں کی گئی قانونی ترمیم کے بعد توہین مذہب کے قوانین کو اس قدر سخت اور بے لچک بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے پر توہین مذہب کا الزام لگاتا ہے اور گلی محلے یا دیہات کا مولوی اسے اشتعال انگیزی کا ذریعہ بنا کر کسی بھی بے قصور شخص کی زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے۔ یا اسے ہجوم کے ہاتھوں مروا سکتا ہے۔ پاکستانی جیلوں میں ایسے درجنوں افراد قید ہیں جن کے مقدمات میں سال ہا سال سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ کیوں کہ ججوں کو ایسے مقدمات سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور کوئی وکیل اس قسم کے ’ملزم‘ کا مقدمہ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

اب ایسے ہی لوگوں میں ایک عمر رسیدہ استاد کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ انہیں کب تک قید میں رکھا جائے گا۔ کبھی ان کے مقدمہ کی سماعت ہوسکے گی یا انہیں کبھی رہائی نصیب ہو بھی پائے گی۔ لیکن پاکستان کی کوئی حکومت اس قسم کے فساد کی وجہ بننے والے متنازعہ اور جابرانہ قوانین کے خلاف رائے تیار کرنے یا انہیں تبدیل کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کی قیادت خود فیض آباد دھرنے کے دوران ان ہتھکنڈوں کو سابقہ حکومت کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کر چکی ہے۔

پاکستان کے بلاسفیمی قوانین کا شکار بننے والوں میں شیخو پورہ کی ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی بھی شامل ہیں جن پر ایک معمولی جھگڑے کے بعد توہین مذہب کا الزام لگا کر 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی ملکوں کے مسلسل دباؤ کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں 2018 میں بری کیا تھا۔ ملک کی مشتعل اکثریت اور گمراہ کرنے والے ملاؤں کے خوف سے حکومت پاکستان کو پہلے انہیں کسی خفیہ مقام پر ’محفوظ‘ رکھنا پڑا پھر خفیہ طور سے بیرون ملک رونہ کردیا گیا۔

کینیڈا نے آسیہ اور اس کے پورے خاندان کو سیاسی پناہ دی ہے۔ آسیہ کے مقدمہ کے تناظر میں توہین مذہب قوانین کو موضوع بحث بنانے کی پاداش میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی سرکاری محافظ ممتاز قادری نے جنوری 2011 میں قتل کردیا۔ ستم ظریفی یہ کہ مقتول کی نماز جنازہ ’خفیہ‘ طور پر گورنر ہاؤس میں ادا کرنا پڑی جبکہ ممتاز قادری کو زندگی اور پھر پھانسی کی سزا پانے کے بعد غازی، شہید اور ولی کا درجہ دیا گیا۔ اب ان کا مزار ’عقیدت مندوں‘ سے گھرا رہتا ہے۔

دیگر معاملات کے علاوہ یہ دو سنگین واقعات کسی بھی ذمہ دار حکومت کے لئے ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کے رجحان کو سمجھنے اور ختم کرنے کی بنیاد بننے چاہیے تھے۔ لیکن ایک کے بعد دوسری حکومت توہین مذہب قوانین کا دفاع کرتے ہوئے ہی اپنی سیاسی بقا کا سامان مہیا کرتی ہے۔ اس وقت بھی وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ایک ایسی ہی حکومت برسر اقتدار ہے جو ایسے کسی قانون میں ترمیم کی بات بھی زبان پر لانے کا حوصلہ نہیں کرسکتی جس کی وجہ سے متعدد بے گناہ ہلاککیے جاچکے ہیں، درجنوں جھوٹے الزام کی وجہ سے کسی باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بغیر جیلوں میں بند ہیں اور ملک بھر کے مذہبی جتھہ بند گھوٹکی جیسے کسی بھی واقعہ کی تاک میں رہتے ہیں تاکہ وہ اپنی دکان چمکانے کے لئے کسی بے گناہ کی بلی چڑھانے کا اہتمام کرسکیں۔

داخلی امن و امان اور مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کی بحث سے قطع نظر ایسے واقعات اور حکومت کا رویہ، اس مقدمے کو کمزور کرتا ہے جو عمران خان گزشتہ چند ہفتوں سے بھارتی حکومت اور اس کی ہندوتوا حکمت عملی کے خلاف سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کا معاملہ پیش کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو ہندو انتہا پسند اور نریندر مودی کو عصر حاضر کا ہٹلر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن کیا دنیا کے لوگ اور سفارت کار کسی ایسی حکومت کے سربراہ کی ان باتوں کو غور سے سن پائیں گے جس کے اپنے ملک میں ایک بچے کے بیان پر پروفیسر قید کرلیا جاتا ہے اور اقلیتی آبادی کے گھر، کاروبار اور عبادت گاہیں نشانہ بنائی جاتی ہیں؟

عمران خان اگر سمجھ سکیں تو انہیں معلوم ہو سکتا ہے کہ ہندو انتہاپسندی کی بنیاد پر کشمیر کے مقدمہ کی تیاری، انہیں اپنے گھر میں مذہبی انتہا پسندی، غیر معقولیت اور سخت گیر قوانین کے خلاف رائے اور میدان ہموار کرتے ہوئے کرنا ہوگی۔ اگر پاکستان کے باشندے واضح اکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیتوں کو قبول کرنے یا ان کی حفاظت کرنے اور انہیں آزاد شہری کے طور پر زندہ رہنے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو ان کی حکومت، ہمسایہ ملک کی حکومت پر مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر سخت گیر پالیسی اختیار کرنے کا الزام کیسے عائد کرسکتی ہے؟

پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ملکی انتہا پسندی کے علاوہ تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی اور عالمی صورت حال کی شکل میں بھی سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے اور امریکہ کی طرف سے ایران پر اس کا الزام لگانے اور اس کارروائی کا ’انتقام‘ لینے کے دعوؤں کی گونج میں کشمیریوں کے لئے اٹھائی جانے والی پاکستان کی نحیف آواز کو سننے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ایک طرف عالمی طاقتوں کی توجہ پاک بھارت تنازعہ سے ایران سعودی عرب قضیہ کی طرف مبذول ہوجائے گی تو دوسری طرف اس بحران سے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا فوری اثرپاکستانی معیشت پر مرتب ہوگا۔

یہ بحران میں جتنا بڑھے گا، پاکستان میں آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کرنے کی جد و جہد میں مصروف حکومت کی مشکلات میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک روز پہلے ہی مالی امور کے مشیر حفیظ شیخ موبائل لائسنس کی فروخت، سٹیٹ بنک کی مالی ایڈجسٹمنٹ اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے ذریعے ایک ہزار ارب روپے جمع کرنے کی نوید دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ ملکی معیشت توقعات کے مطابق ’صحت مند‘ ہورہی ہے۔ تیل مصنوعات کی قیمت میں ہر اضافہ، اس منصوبہ کو ڈبونے کا سبب بنے گا۔

وزیر اعظم نے بھی ویک اینڈ پر ہونے والی معاشی مشاورت میں اپنے مشیروں سے کہا تھا کہ غیر روایتی طریقے اختیار کرتے ہوئے کسی طرح معیشت کو بحال کردیں۔ حفیظ شخ کے حساب کتاب میں جن ایک ہزار ارب روپوں کا تخمینہ پیش کیا گیا تھا وہ شاید اسی غیر روایتی طرز معیشت کا ایک نمونہ تھا۔ تیل کی بڑھی ہوئی قیمتیں اس کا بیشتر حصہ ہڑپ کرچکی ہیں۔ کیا اب حکومت پھر سے معیشت کی بحالی اور اپنے سیاسی بچاؤ کے لئے کوئی روایتی طریقہ ڈھونڈے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali