سیاسی و مذہبی مبالغہ آمیزی


میرے چہار جانب احباب موجود ہیں جو مجھے حوصلہ دے رہے ہیں میری ہمت بندھا رہے ہیں۔ میں اتنی جلدی ہمت ہارنے والا نہیں لیکن ایک ہمہ جہتی زوال ہے جس کے ایک سرے پہ ہمارا معاشرہ کھڑا ہے۔ بلکہ اب یہ معاشرہ ایک سرے پہ کھڑا نہیں بلکہ نشیب کیطرف لڑھک رہا ہے۔ اب محض رفتار کا فرق پڑتا ہے۔ کبھی رفتار تیز اور کبھی کبھار تیز تر ہو جاتی ہے۔ میرے احباب مجھے حوصلہ دے رہے ہیں۔ کہ وقت بدل جائے گا۔ مجھے بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، بالکل شیر جیسی بہادری کا۔

میں چاہتا ہوں ان کے یہ الفاظ ہونٹوں سے نکلتے ہی فضا میں تحلیل ہو جائیں اور کبھی مجھ تک نہ پہنچ سکیں۔ میں کیوں شیر ایسا بہادر بنوں۔ میں انسان ہوں اگر میں ہمت، حوصلہ اور بہادری کا مظاہرہ کروں بھی تو وہ عام انسانوں جتنی ہوگی یا عام انسانوں سے کچھ زیادہ۔ میری سماعتیں اتنی غیر حقیقی تشبیہات سن کر تھک چکی ہیں۔ ایسی تشبیہات یا استعارے محض لفاظی ہیں۔ میرا تو سارا وجود انہی غیر حقیقی استعاروں اور تشبیہات کا ڈسا ہوا ہے۔ میرے معاشرے کے انگ انگ میں مبالغہ آمیزی رچ بس گئی ہے۔ جب معاشرہ یا قوم مبالغوں کا عادی ہو جائے تو وہ محض چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کے قابل رہ جاتے ہیں۔

سیاسی منظر نامے پہ نظر دوڑائیں تو بصارتوں کے سامنے عجیب و غریب منظر رقص کناں ہے۔ مجھے اور میرے معاشرے کو ریاست، طرز حکومت، نظام تعلیم و صحت اور معاشرتی انصاف وغیرہ بارے خواب دیکھائے گئے ایسے خواب جو حقیقت سے کوسوں دور تھے لیکن منظر کشی کرنے والوں نے زمین اور آسمان کے قلابے ملائے۔ تعریفوں کے کئی سو میل طویل پل تعمیر کیے۔ ایسی ایسی غیر منطقی اور غیر حقیقی بات کو صاحبانِ قلم کے قلم سے رقم ہونا نصیب ہوا۔

صاحبانِ فکر و خیال نے ایسے ایسے توجہیات تراشی کہ خیالی منظر نامہ حقیقت لگنے لگا۔ اتنے دلفریب نقشے تو بچپن میں پڑھی جانے والی کہانیوں میں بھی نہیں ہوتے تھے کہ جس میں ملک کا رحمدل بادشاہ ساری رعایا میں آئے روز سونے کی اشرافیاں تقسیم کیا کرتا تھا۔ ایسے غیر حقیقی اور مبالغہ آمیز خیالوں کو حقیقت سے قریب تر ثابت کرنے کے لیے ان میں حسب ضرورت اسلامی تاریخ کے واقعات سے مرضی کے نتائج کشید کر کے قوم کو مزید مبالغہ آمیزی کے سحر میں مبتلا کر دیا گیا۔

امیدوں کے دیے جلتے رہنے چاہیے لیکن اگر یہ دیے ایک الاؤ بن جائیں تو خود امیدوں کے اپنے وجود کو جلانے کا مؤجب بن جاتے ہیں۔ دانستہ چراغوں سے الاؤ بنایا گیا۔ اور الاؤ جلانے والے یہ بھول گئے کہ اس کی حدت سے اب وہ خود بھی متاثر ہوں ہیں۔ سب اچھا فرض کیا اور سب اچھا کی کوشش بھی کی، لیکن پھر بھی بچپن میں پڑھی کہانیوں کا کالا دیو آئے روز کسی نہ کسی شکل میں رعایا میں سے کسی کی قربانی لینے آ پہنچتا ہے۔ آئے روز کوئی حادثہ، آئے روز کوئی سانحہ درپیش ہوتا ہے۔ بقول منیر نیازی

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

مبالغہ آمیز تفسیریں کرنے والے اور خوابوں کی تعبیریں بتانے والے اب ہاتھ کی لکیروں کو کرید رہے ہیں۔ شاید ان سے کچھ اچھا برآمد ہو جائے۔ یہ لکیریں مقدر نہیں ہوتیں یہ محض مقدر کا رقم شدہ حال بتاتی ہیں۔ ہم نے معاشرے میں سیاسی نظریات کی ترویج کے لیے مبالغوں کا جو کوہ ہمالیہ بنا دیا ہے اب وہ اتنی آسانی سے سر نہیں ہو سکتا۔ اس کو حقیقت میں سر کرنے کے لیے بہت سے سروں کی قربانی کی ضروت ہے قطع نظر اس بات سے کہ وہ سر کتنا مقدس اور محترم ہے۔

مذہب کے حوالے سے بھی ہمارا معاشرہ مبالغہ آمیزی سے دامن نہیں بچا سکا۔ سیاسی مبالغہ آمیزی تو محض امیدوں کے چند چراغوں کو گل کرتی ہے، مخلص لوگوں کا فشار خون بڑھاتی ہے یا معاشرے کو یاسیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ لیکن مذہبی مبالغہ آمیزی تو اگلی منزل کھوٹی کر دیتی ہے۔ منبر و محراب اب شعلہ فشانی کی داد سمیٹنے اور نت نئے فضائل اور کرامتوں کے بیان پہ نعرے لگوانے کو باقی رہ گئے ہیں۔ تحقیق ہر شعبہ میں جاری و ساری رہتی ہے اسی طرح دین بھی تحقیق کا مستقل میدان ہے لیکن اس تحقیق کے بطن سے ایسے فضائل اور کرامتوں کا بر آمد ہونا جو بظاہر تو عوام میں مخصوص عقیدہ پختہ کر رہے ہوں جبکہ حقیقت میں وہ عقائد کو مسخ کرنے والے ہوں۔

پھر بھی لوگ سر جھکائے دھن میں نعرے لگائیں ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ یا ”یا علی رض“ تو یہ نعرے محض منہ سے دھرائے جانے والے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ اپنی گہری تاثیر رکھتے ہیں۔ بلاشبہ دین میں مبالغہ آمیزی شیطان کا سب سے بڑا اور کار گر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ اگر آج ہم مختلف مسالک کے عقائد کو دیکھیں تو ان اب میں ایک بنیادی اختلاف اپنے اکابرین بارے مبالغہ آمیز واقعات کی بحث پہ مشتمل ہوگا۔ گذشتہ ایک ہزار سال کے تاریخی واقعات کو مبالغہ آمیز بنا کر اسلام کا تشخص مسخ کیا گیا اور قرآن جیسے آفاقی پیغام کے مقابل مبالغہ آمیز تاریخ کو ایسے بیان کیا گیا جیسے یہی دین کا اصل ماخذ ہے۔

ایسے میں معاشرے کی بنیادی اکائی ”فرد“ کو کچھ سمجانے یا سیکھانے کی بات کی جائے تو وہ اس کو اپنی ذات پہ ہی نہیں بلکہ اپنے دھرم پہ حملہ تصور کرتا ہے۔ اس پہ مستزاد کہ معاشرے میں فکر و خیال اور سوال کا گلا گھونٹا گیا۔ ہر مبالغہ تقدیس کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا گیا کہ سوال کی ضروت ہوتے ہوئے بھی کسی کو سوال کی جرات نہ ہو۔

گویا میدان سیاست ہو یا مذہب کا جہاں، ہم مبالغے کے گھوڑے پہ سوار سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ مبالغے کا گھوڑا کتنا منہ زور ہے اور اس کو قابو میں رکھنے کو کتنی مہارت اور کتنی مشقت درکار ہے۔ اس کا ذرا سا قدم کسی ناہموار جگہ پہ آیا تو ہم اس طرح زمین پہ پٹخے جائیں گے گویا ہم زمین پہ نہیں بلکہ زمین ہم پہ پٹخ دی گئی ہو۔ مبالغہ آمیزی کا رسیا ہونا اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ بطور معاشرہ ہم میں سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور حالات کا ادارک کرنے کے صلاحیت یا تو ناپید ہو چکی ہے یا ناپید ہونے کے قریب تر ہے۔ اور یہ ہونا کون سا نا ممکن ہے۔ جب معاشرے لایعنی بحثوں میں الجھ جائیں اور جب معاشرے حقیت پسند نہ رہیں تو پھر مبالغہ آمیزی کا اپنے عروج پہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ لیکن کب تک ہم مبالغوں کے سہارے جئیں گے؟ کبھی تو ہمیں ہوش میں آنا ہوگا۔ ٹھوکر کھا کر یا بغیر ٹھوکر کھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).