کیا ”حضور بخش مینٹیلیٹی“ سے نجات ممکن ہے؟


آئیے آج آپ کو حضور بخش سے ملواتی ہوں۔ رکیے! پہلے ذرا ان کے نام پر ٹھہریے اور اس نام کے معنی پر غور کیجیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے حضور پاک ﷺ کی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ حضور لگایا گیا ہوگا اور بخش نکلا ہے بخشش سے، نجات سے، معافی سے۔ والدین عموما اپنی اولاد کے لیے ایسے ہی بابرکت ناموں کا نتخاب کرتے ہیں، تاکہ نام کے اثرات عمرِ رواں پر سایہ فگن رہیں، لیکن اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا ایسا ہوتا بھی ہے؟

جواب بھی ملے گا، ذرا کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ حضور بخش کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے یہ ڈرائیور ہیں۔ چالیس کے پیٹے میں چل رہے ہیں۔ کل ان کی بارہ سالہ بیٹی اسکول میں داخلے کے لیے میرے پاس آئی۔ بچی بلا کی ذہین اور خوب صورت تھی۔ گھبرائی اور شرمائی میرے سامنے بیٹھی خواہش کا اظہار کر رہی تھی کہ وہ پڑھنا چاہتی ہے۔ میں نے اس کے حوصلے کی داد دی اور اس سے داخلے کے لیے چند ضروری کاغذات مانگے، جن میں اس کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ اور تصویریں شامل تھیں۔

میرا مطالبہ کچھ ایسا بڑا تو نہ تھا لیکن جانے کیوں مایوسی کے بڑے بڑے سائے اس کے معصوم چہرے پر لہرانے لگے۔ پوچھنے پر بتایا کہ اس کے گھر میں بیٹیوں کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نہیں بنوایا جاتا۔ اس کی بات پر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ جانے اس دنیا میں کیا کیا دیکھنا اور سننا ابھی اور باقی ہے۔ اس کی بھیگی پلکیں دیکھ کر میں نے دل میں ٹھان لیا کہ اس بچی کو ایڈمیشن ضرور دینا ہے۔ داخلے کا فارم پُر کرتے ہوئے تاریخِ پیدائش پوچھی، وہ اس سے بھی یکسر لاعلم تھی۔

”امی بتاتی ہیں کہ میں بھائی سے دو سال بڑی ہوں“۔ یہ کہہ کر اس نے بھائی کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ میرے سامنے میز پر رکھ دیا۔ میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں مسل دیا ہو۔ خود پر کتنا ضبط کر کے اس کے بھائی کی پیدائش کے سال سے بچی کی عمر کا اندازہ لگایا۔ کاغذ پر درج سال سے دو ہندسے پیچھے کر کے پیدائش کے سال کا خانہ تو پُر کردیا، لیکن تاریخ اور مہینے کے خالی خانے اب بھی بھرے جانے کے منتظر تھے۔ مجھے شش وپنج میں دیکھ کر بچی التجا کرنے لگی، ”میڈم کوئی سی بھی تاریخ لکھ دیں، بس مجھے داخلہ دے دیں“۔

مجھے ایسا لگا کہ میری گردن نفی میں ہلی تو وہ ابھی رونا شروع کر دے گی۔ جانے دل میں کیا آئی میں نے اپنی پیدائش کا مہینہ اور دن اس کے فارم میں درج کر کے خالی خانے بھردیے۔ اب تصویروں کا مرحلہ باقی تھا۔ میں نے اسے اگلے دن اپنے ساتھ تصویریں لازمی لانے کی تاکید کی تاکہ فارم کے ساتھ لگائی جا سکیں۔ لیکن وہ اس بار پھر خاموش بیٹھی رہ گئی۔ کچھ نہ بولی۔ میں نے جب دوبارہ کہا، تو رندھی ہوئی آواز میں بولی ”ابو سے تصویروں کا کہوں گی تو وہ داخلہ نہیں لینے دیں گے۔ میں نے بہت مشکل سے ابو کو اسکول کے لیے منایا ہے، ہمارے یہاں لڑکیوں کی تصویریں نہیں بنوائی جاتیں۔ ”

اس کی بے چارگی نے اس معاشرے میں ہونے والے صنفی استحصال طرف سے میری نفرت اور بے چینی کو اپنے عروج پر پہنچا دیا۔ اور پھر میں نے آخری حل کے طور پر موبائل سے اس کی تصویر لے کر محفوظ کرلی اورداخلے کے نہایت آسان طریقے کو انتہائی پیچیدگی سے نمٹادیا۔

بچی داخلہ لے کر خوشی خوشی جانے لگی تو میں نے اسے آواز دی اور پوچھا، ”سنو بیٹا! ابو نے اگر اسکول نہ آنے دیا تو؟ “ اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور پلکیں پٹپٹانے لگی۔ میں نے مزید وسوسوں کا اظہار کر کے اس کی اتنی بڑی خوشی غارت کرنے کے بجائے جانے کا اشار ا کردیا۔ وہ مسکرا کر تقریبا بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی، اور میں اس کی پشت پر نظریں گاڑے شرمندہ ہوتی رہی کہ ہم اجتماعی طور پر سوائے پابندیوں اور بے چارگی میں جکڑنے کے اپنی بچیوں کو کچھ بھی تو نہیں دے پاتے۔

اس کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک بیٹھی بس دو کاغذوں کو تکتی رہی، ایک حضور بخش کے شناختی کارڈ کی کاپی اور دوسرا بچی کے بھائی کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ کی کاپی جو وہ لے جانا بھول گئی تھی۔ یہ دو کاغذ کے پرزے کب تھے، یہ تومردانہ سماج اور غرور کے عکاس تھے۔ جو ماضی میں میرے دیس میں عورتوں پر بیتے کتنے ہی واقعات ایک فلم کی طرح میرے دماغ میں گھما گئے۔

اس معاشرے میں لاتعداد ایسے حضور بخش ہیں جن سے ان کی اپنی بیٹیاں زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے بخشش مانگتی ہیں۔ ہمارے نظام نے حضور بخش مینٹیلیٹی کورَج کے جنما ہے۔ یہ جب ایک گھر کے نگراں ہوتے ہیں تو ان کی بیٹیاں کو لہو کے بیل کی طرح، نام نہاد روایتوں کا پٹا گلے میں ڈالے گھر کی چار دیواری میں گھومتی رہتی ہیں، ذرا قد نکالنے پر کسی مرد کی جنسی بھوک مٹانے اور معاشر ے کی آپے سے باہر ہوتی آبادی کو مزید بے قابو کرنے کے مشن پر جوت دی جاتی ہیں۔

اگر بدقسمتی سے ایسے مردوں کے پاس سرکاری اختیارات آجاتے ہیں تو یہ پوری قوم کی بچیوں کو برقعوں میں لپیٹنے کے احکامات جاری کر کے قومی حضور بخش بن جاتے ہیں اور اگر یہ کبھی اپنے علاقوں کے پنچ بن جائیں تو پھر کوہستان ویڈیو اسکینڈل جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ خدارا! اب یہ کہنے کے بجائے کہ ایسے لوگ خال خال ہی دکھتے ہیں، اپنے اطراف کا عمیق جائزہ لیجیے، اگر میں مبالغہ نہ کروں، تو آپ کو ہر دس میں سے ایک مرد حضور بخش مینٹیلیٹی کا ضرور نظر آئے گا۔

میرے خیال میں ایسے لوگوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے نام کے آگے اس نبیؐ کی نسبت لگائیں جو بیٹیوں کے لیے سراپا رحمت تھا۔ ہماری مزید بدقسمتی کہ سرکار کو ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں، ورنہ ایسے لوگوں کو پابندِ سلاسل کردیا جانا چاہیے جو اپنی بیٹیوں کو اتنی وقعت دینے کو بھی تیار نہیں کہ ان کا نام سرکاری رجسٹر میں ہی چڑھوا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).