شادی کے پانچ برس بعد۔۔۔ ہم دونوں بدل گئے


سنو! ہم دونوں مختلف ہیں۔ میں جب پریشان ہوتا ہوں تو خاموشی کو اوڑھ لیتا ہوں۔ حجوم سے فرار چاہتا ہوں۔ تنہائی تلاش کرتا ہوں۔ کوئی کونا جہاں میرے سوا کوئی نہ ہو۔ کوئی بھی نہیں! سکون سے بیٹھ کر اپنے مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں۔ سوچتا ہوں۔ ساری توانئیاں ایسے حل پر صرف کرتا ہوں جس سے مسئلہ ختم ہوسکے۔ تم شکوہ کرتی ہو۔ میں تمہارے پاس موجود ہوتے ہوئے بھی تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔ میں بات کیوں نہیں کررہا، تمہیں نظر انداز کررہا ہوں۔

ایسا نہیں ہے۔ دراصل پریشانی میں تمہارے پاس ہوتے وقت بھی میں تمہارے پاس جب نہیں ہوتا تو اپنے کونے میں ہوتا ہوں۔ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے۔ پریشانی سے لڑتے ہوئے۔ میں اپنی پریشانی کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ یہ مجھے پسند نہیں۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اور مجھے اپنی پریشانی کسی کو دے کر سکون نہیں ملتا۔ جب میں کسی پریشانی کا حل تلاش نہیں کرپاتا یا تھک جاتا ہوں تو فرار کا راستہ تلاش کرتا ہوں۔

فٹبال کا میچ دیکھنا یہ اخبار پڑھنا میرے لیے مسئلے سے فرار کا بہترین راستہ ہے۔ تمہیں میرے ان مشاغل سے بھی شکایت رہتی ہے۔ اگر میں فٹبال نہیں دیکھوں گا۔ اپنی پریشانیوں سے پیچھا نہیں چھڑاوں گا تو پھر تازہ دم ہوکر تمہارے پاس کیسے آوں گا؟ یہ جو بڑی بڑی سی آنکھیں تم نے میری تاک میں سجا رکھی ہیں ان میں پوری طرح سے کیسے ڈوب پاوں گا؟ تمہارا دن کیسا رہا؟ کس نے کیا کیا یہ کیسے جان سکوں گا۔

دیکھا میں نے کہا تھا ہم دونوں مختلف ہیں۔ میں جب پریشان ہوتا ہوں تو اپنے آپ تک سمٹ جاتا ہوں۔ کسی کونے میں چھپ جاتا ہوں اور پرسکون محسوس کرنے کے لیے یا تو حل تلاش کرتا ہوں یا پھر فرار۔ جبکہ تم! تم جب پریشان ہوتی ہو تو ساتھ تلاش کرتی ہو۔ میرا ساتھ۔ اپنی کسی سہیلی کا ساتھ۔ یا کسی کا بھی ساتھ۔ تم اپنی پریشانی، اپنا مسئلہ سنانا چاہتی ہو۔ تمہیں بات کرکے بتا کے سکون ملتا ہے۔ صرف اپنا مسئلہ ہی نہیں۔ اڑوس پڑوس کے مسئلے بھی تم میرے غوش گزار کرنا چاہتی ہو۔ ایسے مسئلے بھی جن کا کوئی حل نہیں! جیسا کہ ہمارا گھر چھوٹا ہے، بڑا ہونا چاہیے۔ یا ہمارے پڑوس میں آم کا پیڑ نہیں ہونا چاہیے۔ وغیرہ۔

خیر تمہیں پریشانیوں کے حل سے کیا مطلب؟ تم سنا کر، بانٹ کر، ہمدردی لے کر اچھا محسوس کرتی ہو۔ حل ہو یا نہ وہ، تمہاری بلا سے۔

یہ راز کہ تم مجھے سنانا چاہتی ہو، اپنی باتیں بانٹنا چاہتی ہو۔ میں نے بہت مشکل کے بعد سیکھا ہے۔ اب چونکہ تمہیں اپنے پریشانی بانٹ کر اچھا لگتا ہے تو تم چاہتی ہو میں بھی اپنی بات، اپنا خیال اور اپنی پریشانی تمہیں دے دوں اور اچھا محسوس کروں۔ جب میں ایسا نہیں کرتا تو تمہیں نظر انداز ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ جس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ ایسے ہی جیسے شروع شروع میں جب تم اپنے سارے مسئلے مجھے بتانے لگتی تھی تو میں فٹافٹ حل تجویز کیا کرتا تھا۔

ایسے نہیں ویسے کرلو۔ یہ نہیں وہ دیکھ لو۔ مگر تمہارا کوئی رد عمل نہیں آتا تھا۔ مجھے سخت کوفت ہوتی تھی۔ جیسے کسی نے میری دانش کو مسترد کردیا ہو۔ یہ تو اب کچھ کچھ سمجھنے لگا ہوں کہ تمہیں بس اپنی بات مجھے بتانی ہے۔ تمہاری بات کو پوری توجہ سے سننا اور پھر ہمدردی بھی ظاہر کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ مگر یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب میں خود تمام فکروں سے آزادی حاصل کرلوں۔ اس کے لیے مجھے اپنے کونے میں کچھ وقت بتانا ہوگا یا پھر فٹبال کا اچھا سا میچ دیکھنا ہوگا۔

اگر اب تم ناراض نہ ہو تو میں ٹی وی کا ریموٹ اٹھالوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).