مسرتوں سے بھرپور بڑھاپے کے چودہ اصول


اکثر لوگ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد زندگی سے بیزاری، قنوطیت اور مایوسی کی مالا جپنے لگتے ہیں۔ جیسے خانگی اور ملازمتی ذمہ داریوں کی تکمیل کے ساتھ زندگی کی معنویت بھی اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ جاپان سے درآمد شدہ دو الفاظ اپنی گرہ سے باندھ لیں۔

1۔ اکی گائی (Ikigai) یعنی زندگی میں مقصدیت

2۔ موئی (Moai) ایسے سماجی گروہ کا باہم میل جول جن کے شوق مشترکہ ہوں۔

ان دونوں الفاظ کا تعلق جاپان کے باشندوں کی طویل العمری سے ہے کہ جہاں اوسط عمر 87.9 ہے۔ بہت فعال اس طویل العمر جاپانی بزرگ بامقصد اور سماج سے جڑی بھرپور زندگی سے لطف اٹھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

جاپان جسے طلوع ہوتے ہوئے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے کی چوتھائی آبادی پینسٹھ 65 برس کی عمر سے زیادہ ہے۔ جن میں سو سال سے تجاوز کرنے والوں کی تعداد ستر ہزار ہے۔ ( 2019 ) اس طویل عمری کا راز ملک کے بہترین نظامِ صحت اور صحتمند غذا میں ہے۔ وہاں ان افراد کی مثبت سوچ اور سماج سے وابستہ متحرک طرزِ زندگی میں بھی ہے۔

یوں تو کئی اہم شخصیات طویل العمری کے حوالے سے قابلِ ذکر ہیں مگر جس شخصیت کا نام سرِ فہرست ہے وہ ڈاکٹر شیگاکی ہینو ہارا (Dr Shigeaki Hinohara) ہیں۔ جو چار اکتوبر 1911 میں پیدا ہوئے اور 18 جولائی 2017 کو 105 سال کی عمر میں وفات پائی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ٹوکیو کے سینٹ لیوکس انٹرنیشنل ہسپتال سے 1941 میں بطور میڈیکل ڈاکٹر وابستہ ہوئے اور آخری دم تک اعزازی طور پہ ہسپتال کے صدر تھے۔

Dr Shigeaki Hinohara

وفات سے چند ماہ قبل تک انہوں نے باقاعدگی سے بطور ڈاکٹرمریض دیکھے۔ بے شمار کتابیں لکھیں۔ بلکہ 101 سال کی عمر میں اپنی بیسٹ سیلنگ کتاب لکھی۔ 1950 میں انہوں نے جاپان میں ہر شخص کے لئے سالانہ صحت کی جانچ کا نظام رائج کیا۔ ان کی 2001 میں چھپنے والی ایک کتاب لیونگ لونگ لیونگ گڈ 2001 کی ایک ملین جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔ اپنی صحت مند طبی حیات میں انہوں نے سالانہ ایک سو پچاس لیکچرز اور 150 لکھی ہوئی کتابوں کی مدد سے طویل اور پرمسرت زندگی گزارنے کے کچھ اصول بتائے۔ جو درج ذیل ہیں۔

1۔ جسمانی طور پر چست رہیں :۔ ان کا مشورہ ہے کہ ہر وہ موقعہ ڈھونڈیں جس سے جسم متحرک رہے۔ مثلا اپنا سامان اٹھا کر لفٹ کے بجائے زینہ چڑھیں۔ خود وہ ایک وقت میں دو سیڑھیاں چڑھتے تاکہ عضلات کی ورزش ہو۔

2۔ خود ایک طبی معالج ہونے کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ اپنے ڈاکٹروں کی ہر تجویز پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں۔ خود آگہی اور مطالعہ سے اپنی معلومات بڑھائیں اور غور کریں کہ آخر آپ کے جسم کی کیا ضرورت ہے کیونکہ اپنے جسم کو کسی بھی دوسرے سے زیادہ خود آپ جانتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر کسی دوا یا سرجری کا مشورہ دیں توپوچھیں کیا وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی یہی مشورہ دے گا؟

3۔ نوکری سے سبکدوش ہونے کی ضرورت نہیں :۔ اگر آپ کو کوئی جسمانی یا ذہنی بیماری نہیں اور اپنے کام کو پسند بھی کرتے ہیں تو اپنے کام سے جتنا لطف اندوز ہو سکتے ہیں، اتنا ہوں۔ خود ڈاکٹر شیگاکی نے آخری عمر تک ہفتہ میں سات دن اٹھارہ گھنٹے یومیہ کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ساٹھ سال کی عمر تک ہم خاندان کی بہبودی کے لئے کام کرتے ہیں مگر اس کے بعد سماج کے لئے دفاعی کام ہونا چاہیے۔

4۔ اپنی معلومات میں دوسروں کو شریک کریں :۔ وہ سالانہ 150 لیکچرز اسکولوں اور بزنس کمیونیکیشن سے وابستہ افراد کو دیتے۔ ان لیکچرز کا دورانیہ 90 منٹ کا ہوتا اور وہ یہ لیکچرز کھڑے ہو کر دیتے تھے۔

5۔ منصوبہ بندی اور لائحہ عمل :۔ مستقبل کی منصوبہ بندی اور حدف کا تعین آپ کو ذہنی طور پہ صحت مند رکھتا ہے۔ ڈاکٹر کی ڈائری پانچ سال تک کے منصوبوں سے پُر رہتی ہے جن میں ان کے لیکچرز، اپائنٹ منٹس اور ہسپتال کا کام شامل تھا۔ گو ان کی وفات 2017 میں ہوگئی مگر ان کا 2020 میں ہونے والا ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کا ٹکٹ بک تھا۔

6۔ اپنے وزن کو قابو میں رکھیں :۔ موٹاپا، بلڈ پریشر اور اسٹروک کی جڑ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ خود ڈاکٹر صبح تازہ اورنج کا جوس، کافی اور زیتون کا ایک چمچہ پیتے ہیں، دوپہر میں دودھ اور بسکٹ اور رات کے لئے سبزیاں، مچھلی کا ٹکڑا، تھوڑے چاول اور ہفتہ میں دوبار چکنائی نکلا سو گرام گوشت کا ٹکڑا کھاتے تھے۔

7۔ اپنے میں مثبت طاقت پیدا کریں :۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقت اچھا محسوس کرنے سے آتی ہے نہ کہ زیادہ کھانے یا سونے سے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سخت قسم کے اصول وضوابط سے آزاد ہو کر بچوں کی طرح جو دل چاہ رہا ہے کریں اور مزے سے رہیں۔ بجائے اس کے کہ وقت پر ہی سوئیں اور وقت پہ کھانا کھائیں وغیرہ وغیرہ۔

8۔ وقار سے عمر رسیدگی کی طرف بڑھیں :۔ بوڑھے ہونے سے مت ڈریں۔ طویل العمری تو بہت زبردست بات ہے۔ اس کو سماج کی بھلائی کے لئے استعمال کریں اور رفاہی کام کریں۔

9۔ مثالیہ (رول ماڈل) تلاش کریں :۔ ڈاکٹر ہنوہارا کا ایمان ہے کہ زندگی میں صحیح معنوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ ان کے والد ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔ لہذا اپنی زندگی کے چیلنجز سے بنرد آزما ہوتے وقت وہ اپنے ذہن میں سوال کرتے کہ میرے والد نے اس موقع پہ کیا کیا ہوتا؟ پھر انہیں فیصلہ میں آسانی ہو جاتی۔

10۔ زندگی کا منبع پیسہ ہی نہیں :۔ پیسہ ہم اگلے جہان میں نہیں لے جائیں گے۔ لہذا اہمیت کو لحاظ سے زندگی کی ترجیحات کا تعین کریں۔

11۔ محض سائنس میں انسان کی بھلائی یا علاج نہیں۔ سائنس میں ہی ہمارے ہر سوال کا جواب نہیں ملتا ہمیں چاہیے کہ بصری اور لبرل آرٹس کو بھی نظر میں رکھیں۔ بیماریوں کا علاج محض سرجری اور دوائیاں ہی نہیں۔

12۔ بہت زیادہ پریشان مت ہوا کریں :۔ جن باتوں پہ اختیار نہیں اس پر اپنی طاقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ فکر مندی، ڈیپریشن اور صحت کے مسائل جنم دیتی ہے۔ لہذا پرسکون رہا کریں۔

13۔ درد زندگی کی سب سے بڑی پراسراریت ہے :۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ درد بھلانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ کوئی دلچسپ چیز کریں۔ جیسے بچے بیماری میں کھیلتے ہوئے اپنا درد بھول جاتے ہیں۔ خود انہوں نے اپنے بنائے ہوئے سیروکہ انٹرنیشنل ہسپتال میں موسیقی اور جانوروں کے ذریعہ تھراپی اور اس کے علاوہ آرٹ کی کلاسیں بھی رکھی تھیں۔ تاکہ مریض ان میں مصروف ہو کر درد میں کمی محسوس کریں

14۔ متاثر ہوا کریں :۔ دل میں امنگ اور لو جلائے رکھیں اور ہر وقت کسی متاثر کن چیزکی تلاش میں رہیں۔ مثلا کوئی متاثر کن نظم پڑھیے اور اس طرح متحرک اور فعال رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).