کتے کے بچے کتے ہی ہوتے ہیں


مجھے کتوں سے ہمیشہ ڈرتا لگتا ہے۔ خاص کر وہ کتے جو بھونکے بغیر کاٹتے ہیں۔ یہ ڈر کیوں پیدا ہوا؟ اس سے میں ناواقف ہوں۔ میں اس بابت کچھ زیادہ جاننا بھی نہیں چاہتا۔ کیونکہ کتے جو بھی ہوں جیسے بھی ہوں، کتے کے بچے ہی ہوتے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ بھلا کتے کے بچے کتے نہیں ہوں گے تو کون ہوں گے۔ ابھی ابھی پتہ چلا کہ سندھ میں رواں برس ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کو کتوں نے کاٹا۔ لاڑکانہ میں کتے کے کاٹنے سے جاں بحق ہونے والے بچے کی ویڈیو دیکھ دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔

موت کواتنے قریب سے اس طرح کبھی نہیں دیکھا تھا۔ زندگی کی آخری ہچکی لیتے وقت بچے کی حالت دیکھ کر سُن سا ہوگیا تھا کہ کیا کوئی کتا اس قدر حاوی ہوسکتا ہے کہ انسان کواس قدر بُری موت سے ہمکنار کرے؟ حسب عادت سوشلستان میں حمایتوں اور مخالفین کی چیخ پکار و الزامات کا نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہوگیا۔ نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ جیسے گلی میں آوارہ کتے بھونک رہے ہوں۔ میرے علاقے میں بھی آوارہ کتے بہت ہیں۔ رات گئے گھر جانے سے ڈر لگتا ہے۔

سانس اوپر نیچے ہوتی ہے کہ کہیں کوئی کتا مجھے پہچاننے سے انکار کردے اور غپ کر کے کاٹ نہ لے۔ کہتے ہیں کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں لیکن یہ ضرب المثل کتے کے علم میں نہ ہو تو؟ بتایا جاتا ہے کہ کتے کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ اجنبی لوگوں کو اپنے علاقے میں دیکھ کر بھونکتے ہیں۔ اجنبی کتوں کو بھی اپنے علاقے میں داخل نہیں ہو نے دیتے۔ سب کہتے ہیں کہ اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ لیکن شیر کتا کب بنتا ہے اس میں ایک خاص اسرار ہے۔

کندھے پر رکھی گٹھری، کچرا چننے والے، موٹر سائیکل سوار اور چمکتی کار، کتوں کے خاص دشمن قرار دیے جاتے ہیں۔ اب ان سے ان کتوں کو کیا دشمنی، اس پر کئی سیر حاصل مقالات لکھے جا سکتے ہیں لیکن کتوں پر لکھنے سے کیا فائدہ۔ جن کو کتے کاٹتے ہیں وہ اپنے علاقوں میں کتے پالتے ہی کیوں ہیں؟ کچراچننے والا جانتا ہے کہ بھونکنے والا کتا سمجھ رہا ہے کہ اس کا کوئی مال متاع اس نے چرا لیا ہے اس لئے وہ بھونک رہا ہے۔ کسی کے کندھے پر سامان دیکھ کر کتے نہ جانے کیوں بھونکتے ہیں حالاں کہ کتوں کو تو کسی سو برس کے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ پل بھرمیں جہاں چاہیں ٹانگ اٹھا کر اپنا کام کرجاتے ہیں۔ انسان اور کتے میں یہی فرق ہے کہ انسان کسی کے کام میں ٹانگ اڑاتا اور کتا ٹانگ اٹھاتا ہے۔

موٹر سائیکل سوار پر جب کتے جھپٹتے ہیں تو بچارا اور تیزی سے موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دیتا ہے یہاں تک کہ صرف ایک کتا اُسے تڑی پار لگا دیتا ہے۔ چمکتی کار والے بہرحال انجوائے کرتے ہیں۔ بند شیشوں سے مسکراتے ہیں، گاڑی کو کتے پر چڑھانے کی کوشش کرتے خود کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ لیکن کتے بازنہیں آتے اور اس وقت تک بھونکتے رہتے ہیں جب تک چمکتی کار اُن کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے۔

کتوں کا اتحاد بھی بڑا مثالی ہوتا ہے، اگر ایک کتا شمال سے بھونکتا ہے تو جنوب سے کتا یہ جانے بغیر کہ ماجرا کیا ہے وہ بھی بھونکنا شروع کردیتا ہے۔ مغرب کا کتا مشرق کے کتے کو دیکھ کر بھونکنا شروع کردیتا ہے۔ ایک دو منٹ میں کتے بھونک بھونک کرآسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ میں ایسے آوارہ کتوں سے بڑا تنگ ہوں کیونکہ جس جگہ رہتا ہوں ان کتوں کے بچوں نے مخصوص وقت کا تعین کیا ہوتا ہے اور دروازے کے پاس جوبھونکنا شروع کرتے تو میں پتھر اٹھا کر انہیں مارنے دوڑتا ہوں۔

کیونکہ یہ کتے مجھے پہنچانتے بھی ہیں اس لئے غووں غاؤں کی آوازیں نکال کر بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن ایک آدھ گھنٹے کے بعد پھر آجاتے ہیں اور میں غصے میں خبر نامے کی آواز بلند کردیتا ہوں کہ سنو تم بھی سنو۔ تمھاری سنوں کہ ان کی۔ یقین جانئے کہ اس کے بعد کتوں کی آواز خامو ش ہوجاتی ہے اور صرف خبرنامے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جس کی آواز بند کرنے کے لئے ریمورٹ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

میں کتوں کی اس منطق کو آج تک نہیں سمجھ سکا۔ میں یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ دن کے وقت یہ کتے ہوتے کہاں ہیں۔ میں دن میں کتوں کو تلاش کرتا ہوں لیکن وہ کسی سائے میں نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں یا کسی درخت کے نیچے گڑھا کھود کر سستا رہے ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی ڈھٹائی پر بڑا غصہ آتا ہے کہ رات بھر میری نیند خراب کرنے کے بعد کتنے سکون سے سو رہے ہیں۔ پھر اتنے میں فون بجتا ہے میں فون پر نا پسندیدہ نمبر دیکھ کر بُرا سا منہ مناتا ہوں لیکن مسکراتے ہوئے بولتا ہوں۔

جی بھائی آرہا ہوں۔
راستے میں ٹریفک جام ہے ناں۔
کیا۔ ارے نہیں نہیں، میں پہنچ جاؤں گا۔
ارے آپ نے اتنی محبت سے جو بلایا۔
اچھا اچھا۔ کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔
بے فکررہیں میں وقت سے پہلے پہنچ جاؤں گا۔

فون بند کرتے ہوئے آوارہ خاموش کتوں کو دیکھ رشک آتا ہے کہ کس قدر بے فکر کتوں کی زندگی بسر کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).