والدین کی تربیت بھی درکار ہے


دو سو روپے سے لے کر پانچ سو روپے تک میں ایک بچے کے کچھ وقت کو خریدا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ٹرک کے اڈے پر، بس کے اڈے پر، ریلوے اسٹیشن کے آس پاس، بازاروں میں یہاں تک کہ بڑے شہروں کے پارکوں میں، ویڈیو گیمز کی دکانوں پر، اسنوکر کلبوں میں۔ جناب حکم کریں۔ بچہ حاضر ہے۔ تھوڑے سے پیسے دیں۔ اپنی آگ بجھائیں اور معاشرے میں پھر سے پارسا بن جائیں۔

کسے نہیں معلوم؟ خبریں آتی رہتی ہیں کہ بچہ مسجد اور مدرسے جیسی مقدس جگہوں تک میں محفوظ نہیں۔ استاد کا شیطان کب جاگ جائے کچھ خبر نہیں۔ ننھی زینب کا سانحہ کس نے نہیں دیکھا؟ کس کا دل نہیں رویا؟ اس سب سے مگر ہم نے سیکھا کیا؟ حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ صرف مجرم کو پکڑ لینا کافی تھا؟

مجرم تو پھر مجرم ہے، درندے سے خیر کی توقع کرنا حماقت ہے اور ہلاکت بھی۔ ماں باپ کا کام کیا ہے؟ صرف بچہ پیدا کردینا؟ اور پھر سڑک پر چھوڑدینا؟ بہتی ناک، برہنہ جسم اور ننگے پاؤں؟ درندے سفاقیت کرنا نہیں بھولتے تو ماں باپ ذمہ داری پوری کرنے میں کیوں چوک جاتے ہیں؟ درندوں سے بھرے معاشرے میں پھولوں کو کچلے جانے کے لیے کیوں چھوڑدیا جاتا ہے؟

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ اچانک نہیں ہوتا

معاشرے میں اگر کوئی بے روزگار ہے، آوارہ ہے یا عیاش۔ کوئی جنسی طور پر کمزور ہے یا ہم جنس پرست۔ اس کا دیسی علاج کیا ہے۔ اس کی شادی کردو۔ لڑکا کماتا کھاتا نہیں! کوئی بات نہیں، آنے والی اپنا نصیب خود لے کر آئے گی۔ لڑکے کو خواتین میں دلچسپی نہیں۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں، شادی کردیں آنے والی سب ٹھیک کردے گی۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مشورے۔ معاشرے میں ہر للو پنجو شادی کرکے بچے پیدا کرلیتا ہے۔ اور بچے بھی کوئی ایک یا دو نہیں۔ بچوں کی پوری فوج۔

بچوں کا تن ڈھانپنے کو لباس ہے یا نہیں؟ مناسب خوراک ہے یا نہیں؟ تعلیم کے لیے وسائل ہیں یا نہیں؟ ان کی بلا سے۔ یوں بھی شادی کے بعد اگر کوئی جوڑا اولاد کے حصول میں وقفہ کرنا چاہے تو پہلے باتیں اور پھر طعنے جینا حرام کردیتے ہیں۔ مرد کو مردانگی اور عورت کو مکمل جسامت ثابت کرنے کے لیے اولاد پیدا کرنی ہی پڑتی ہے۔

حکومت نکاح کی سروس تو فراہم کرتی ہے مگر اس سے پہلے کے مراحل کی نہیں۔ ایک اچھا خاوند کیسا ہوتا ہے؟ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ بیوی کے حقوق اور فرائض کیا ہیں؟ کتنے جوڑوں کو شادی سے قبل اس کی تربیت دی جاتی ہے؟ کتنی کتابیں اس موضوع پر پڑھی جاتی ہیں؟ پھر ماں باپ بننے کے بعد اولاد کو پالنا کیسے ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اس کی تربیت کا رجحان ہی معاشرے میں موجود نہیں۔

نتیجے میں اولاد کا حصول کسی شغل سے کم نہیں۔ دنیا بھر میں پہلی اولاد کے کھیلنے کے لیے کھلونے لائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بچے کا دل لگانے کے لیے ایک اور بچہ پیدا کرلیا جاتا ہے اور گلیوں میں رلنے کے لیے چھوڑدیا جاتا ہے۔ بے شک بچوں سے زیادتی کے واقعات کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا مگر ماں باپ کیسے بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟ ننھی زینب کے والدین بھی اسے چھوڑ کر خود حج پر تشریف لے گئے تھے۔ اگر مستقبل میں اس طرح کی درندگی کو روکنا ہے تو مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ والدین کی تربیت بھی کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).