حجاب سے ہے رگِ ملا میں پیہم اضطراب


تعلیمی اداروں میں بچیوں کے لئے حجاب اور عبایا کے ضمن میں خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا اور پھر واپس لے لیا۔ ملائے مکتب کی صفوں میں مگر اس سے وہ طوفان اٹھا کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ کالم پر کالم ارزاں کیا جا رہا ہے۔ بیان پر بیان چلا آ رہا ہے۔ ایک نوٹیفیکیشن پر ایسی قیامت اٹھا دی گویا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 منسوخ کر کے جو ظلم کیا ہے، خیبر پختون خوا حکومت نے گویا اس زمین میں صنعت مستزاد کا مظاہرہ کر دیا ہے۔ ایسا طوفان جیسے بطن گیتی روز ازل سے اس نوٹیفیکیشن ہی کے انتظار میں تھا۔

“ہم سب” میں بھی دھڑا دھڑ لکھا جا رہا ہے۔ پروفیسر عاصم حفیظ کے کالم نے لیکن اس زمین میں کلام خاتم کا بیڑا اٹھایا!

محترم کالم نگار اسلامی تہذیب کا ڈنکا پیٹ پیٹ کے لبرل طبقے کو کوسنے میں مصروف ہیں۔ یوں محسوس ہوا کہ موصوف کو اسلام کا ایک ہی رنگ نظر آیا اور وہ ہے عورت کا حجاب اور عبایہ!

شاید اس لئے کہ بے حجاب عورت پہ جب نظر اٹھتی ہے تو پھر جھکنا بھول جاتی ہے۔ جب تک نفس غیر مطمئنہ عورت کے نشیب و فراز کا تفصیلی جائزہ لے کے مطمئن نہ ہو جائے۔ آخر نظر کا قرض ہے، دل کی تسکین کے تقاضے ہیں، اپنی نظر پہ قابو رکھنا مشکل ہے تو فریق ثانی ہی کا جینا حرام کیا جائے۔

کاش محترم پروفیسر صاحب، عرب میں رائج اسلامی تہذیب کے دیگر نمونوں پر بھی نظر کرتے اور ان کی کم فہمی اور کم علمی کو دور کرنے کا بیڑا ہمیں نہ اٹھانا پڑتا۔ دل چاہتا ہے کہ ان اسلام کے ٹھیکے داروں کو کچھ اسلامی تاریخ یاد کرواؤں، جو ان متوالوں کو یاد رکھنے میں ذرا مشکل پیش آتی ہے۔

تاریخ اسلام کی پہلی خاتون ، اسلام سے پہلے بھی معزز سمجھی جانے والی کامیاب بزنس وومن، چالیس برس کی بیوہ خدیجہ اپنے سے پندرہ سال چھوٹے خوبرو ناکتخدا کو پسند کرکے شادی کا پیغام دیتی ہیں اور سرور کائنات اثبات میں جواب دیتے ہیں۔ یہ ہے ایک عورت کا آسمان اور لا محدود پرواز، جہاں تک آج چودہ سو سال بعد بھی ہمارا قیاس پہنچ نہیں سکتا۔ عرب میں آج بھی کسی بھی عمر اور رتبے کی عورت کسی بھی عمر کے مرد سے شادی کر سکتی ہے۔ اپنی پسند اور اپنی مرضی کا نعرہ چودہ سو سال سے موجود ہے۔ نہ تو والدین کی عزت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور نہ ہی برادری کی عزت پر حرف آتا ہے عورت کو موت کے گھاٹ اتارنے پہ جس غیرت کا نعرہ لگایا جاتا ہے اس کا اسلامی تہذیب میں دور دور تک تصور نہیں۔ بی بی عائشہ پہ بہتان لگایا جاتا ہے، تو کوئی باپ، بھائی یا شوہر گردن تن سے جدا نہیں کرتے۔

کیا خیال ہے پروفیسر صاحب ، اس پہلو پر بھی ایک کالم ہو جائے تاکہ اس شاندار اسلامی تہذیب و ورثے کی روایت پر ہم عورتیں بھی عمل کر سکیں۔

عورت کے جذبات و احساسات کس قدر اہم ہیں، ان کا بھی اسلامی تہذیب کے اس واقعے سے لگا لیجئے۔ جب ایک خاتون نے پیغمبر سے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے سے قاصر ہیں کہ اس کی شکل و حلیے سے وہ کراہت محسوس کرتی ہیں۔ نبوت کے داعی نے ڈانٹ پھٹکار کرنے کی بجائے ان کی بات سن کے طلاق لینے کی اجازت دی۔ ذرا سوچیے آج کل مردوں کی بے ہنگم داڑھیوں اور گنبد بے در نما شکم سے زچ ہو کے اگر عورتیں علیحدگی اختیار کرنا چاہیں گی تو ہمارے محترم پروفیسر کیا پھر بھی اسلامی تہذیب کی دہائی دیں گے؟

جہیز میں ڈھیروں ڈھیر اشیا نہ لانے پہ معصوم لڑکیوں کے جسم راکھ ہوتے تو دیکھےہی ہیں نا آپ نے۔ اسلامی تہذیب اور تاریخ جہیز نامی کسی ہندوانہ بدصورتی سے واقف نہیں۔ دولہا کی مالی حثیت چاہے کلرک کی ہو یا کسی اور معمولی ملازمت کی، اس کو شادی سے پہلے گھر اور ضروریات زندگی کا انتظام کرنا ہی ہوتا ہے اور دلہن رخصت ہو کے اسی گھر میں اترتی ہے۔ ساس کی شعلہ بار آنکھوں اور نندوں کی بد نما سیاست کے بنا زندگی کا آغاز کیا جاتا ہے اور کسی بھی مشکل کی صورت میں دونوں ساتھی ایک دوسرے کا مداوا کرتے ہیں۔ دولہا میاں اپنے خاندان کے ساتھ مل کے اپنی ہم سفر کو آگ کے حوالے نہیں کرتے۔ کیا حجاب کی مالا جپنے والے ہمارے دانشور اس موضوع پہ بات کریں گے ؟

ایک اور منظر دیکھیئے۔ بارات آچکی ہے اور دولہا والوں کی تیوریاں چڑھ چکی ہیں۔ گرما گرم بحث ہے اور بارات واپس لے جانے کی دھمکی ہے۔ معاملہ عورت کے حق مہر کا ہے، سو دل کیسے مانے۔ اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور حق مہر چودہ سو برس پہلے والا کہ اسلامی تہذیب سے محبت بہت ہے۔ اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ حصول عورت کے لئے جیب پہ بوجھ نہ پڑے۔ حجاب کا معاملہ تو مختلف ہے، زبان کو تھوڑی سی تکلیف دے کے تقریر ہی تو کرنا ہے۔

آئیے آپ کو بتائیں کہ دنیائے عرب، اسلامی تہذیب کے وارثوں کے ہاں حق مہر کا کیا رواج ہے، یہاں حق مہر شادی سے پہلے ادا کرنا لازمی ہے۔ ہم جب ساتھی خواتین سے سنتے ہیں کہ ان کے ہونے والے شوہر شادی سے پہلے ہی بیس سے چالیس لاکھ حق مہر ادا کر چکے تو ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے کہ کبھی کوئی ہمارا حق مہر نہ پوچھ لے، جو عین اسلامی روایات کے مطابق مبلغ پانچ سو روپے ٹھہرایا گیا تھا اور ہمارے ہاتھ میں تھما بھی دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ کسی کی کم حیثیت حق مہر میں کوئی حثیت نہیں رکھتی۔ ہر لڑکا ملازمت میں آتے ہی روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے کہ حق مہر اور علیحدہ گھر کے بنا شادی ناممکن ہے۔ اب تو پروفیسر صاحب یقینا چاہیں گے کہ ہمارے معاشرے کی غیر اسلامی روایات کا خاتمہ کیا جائے۔ نہ معصوم لڑکیاں آگ میں راکھ ہوں گی، نہ ساس نند زندگی اجیرن کریں گی اور نہ ہی لوگ بیٹی کے پیدا ہونے پہ رنجیدہ نظر آئیں گے۔

ارے بھیا! قرآن کے وراثت کے اصول تو آپ نے پڑھ ہی رکھے ہوں گے اور امید کرتی ہوں کہ آپ ان احکامات کی پابندی کرتے ہوئے معاشرے میں تلقین شاہ بھی بنتے ہوں گے۔ خدائے بزرگ و برتر نے وراثت کے قانون پہ عمل نہ کرنے والوں پہ بے حد و بے حساب لعنت فرمائی ہے۔ اس حساب سے تو اس حمام میں تقریبا سب ننگے ٹھہرے کہ زیادہ تر کا یہ کہنا ہے اللہ کا کہنا برحق مگر فی الحال زندگی مشکل ہے اور جائداد بانٹ کے اسے مزید مشکل کیوں بنایا جائے۔

ہمارے ماموں اس سلسلے میں دور کی کوڑی لائے۔ اماں سے جائیداد اپنے حق میں لکھوا بھی لی اور مزید محفوظ رہنے کے لئے ایک ایسی دستاویز پہ دستخط لےلئے جس کے مطابق ہماری اماں نے اپنا حصہ بیچ دیا تھا۔

پروفیسر صاحب ! آپ کہہ رہے ہیں نا کہ کتاب میں واضح احکامات حجاب کے بارے میں ہیں۔ کتاب میں تو حجاب سے کہیں زیادہ واضح احکامات کم تولنے، ملاوٹ، جھوٹ، غیبت، انصاف اور صلہ رحمی کے بارے میں موجود ہیں۔ جان سکتی ہوں کہ آپ نے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے کتنی تقریریں کیں یا کتنے آرٹیکل لکھے؟

رات کی تاریکی میں پورن فلمیں دیکھنے والے، زینب اور فرشتہ کو درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو اپنی بے قابو وحشتوں کا علاج ایک ہی نظر آتا ہے۔ اور اسلامی تہذیب کی بھی ایک ہی شاندار مثال نظر آتی ہے اور وہ ہے حجاب اور عبایہ!

آپس کی بات ہے!  بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں بے چارے نفس کے مارے! مشکل اپنے نفس میں ہے اور نشانے پہ ہے بے چاری مجبور مخلوق عورت۔ اصل میں انہیں عورت تھری ان ون کے پیکج میں چاہیے۔ اپنی اور اپنے گھر والوں کی خدمت کے لئے ہندوانہ داسی، اپنی وحشت کو قابو میں رکھنے کے لیے اسلامی باندی اور رات کی تاریکی کو رنگین بنانے کے لئے زن بازاری۔

اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین حقانیت اتارا ہی اس لئے گیا تھا کہ عورت نامی مخلوق کو سدھارنا مقصود تھا۔ اس وقت نوزائیدہ مٹی میں زندہ دفن ہو رہی تھی۔ آج عمر کے کچھ سال گزار کے زندہ دفن ہو رہی ہے، فتووں میں، مرد کی نفسانی کمزوریوں میں، لعن طعن میں، چاردیواری میں، بنیادی انسانی حقوق سے محرومی میں۔

مبارک ہو آپ سب کو، آپ نے اسلام کی روشنی کو عورت کی قبر تک نہیں پہچنے دیا۔ جائیے! جنت کی حوریں آپ کی راہ تک رہی ہیں، کیا خبر آپ کا کچھ علاج انہی کے ہاتھوں ہو جائے۔ ویسے اس جہاں مین بھی اس سوچ کا مآل حضرت اقبال نے لکھ رکھا ہے

مَیں بھی حاضر تھا وہاں، ضبطِ سخن کر نہ سکا

حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت

عرض کی مَیں نے، الٰہی! مری تقصیر معاف

خوش نہ آئیں گے اسے حُور و شراب و لبِ کشت

نہیں فردوس مقامِ جَدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

ہے بد آموزیِ اقوام و مِلل کام اس کا

اور جنّت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کُنِشت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).