نسوانی گوشت کی دکان


میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یار یہ جسم فروش عورتیں کس مٹی کی بنی ہوتی ہیں۔ چند سو روپوں کی خاطر کہیں بھی کسی بھی مرد کے سامنے کپڑے اتار پھینکتی ہیں۔ پوری پوری رات غیرانجان مردوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزار دیتی ہیں۔ ایک وقت میں کئی کئی مردوں کے اندر کا درندہ رام کردیتی ہیں۔ جب کوئی معاشرے کا ناسور اپنی غلاظت ان کے بدن میں انڈیل رہا ہوتا ہے ان عورتوں کے دل میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔ میں نیا نیا پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔

اکثر اس طرح کی عورتوں کو جب ہم گرفتار کرتے تو میرا دل کرتا میں ان سے باتیں کروں۔ پتہ نہیں کون سی گتھی تھی جو میں سلجھانا چاہتا تھا ناجانے کیوں ہمیشہ میرے دل میں ایسی عورتوں کے لیے ایک ہمدردی سی رہی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پرویز مشرف پر ایک ہی وقت میں یکے بعد دیگرے دو تین خودکش حملے ہوئے اور پرویزمشرف صاحب محفوظ رہے۔ حملوں کے فوراً بعد پنجاب کانسٹیبلری کی بھاری نفری راولپنڈی تعینات کردی گئی۔ میں اس وقت لاہور قلعہ گجر سنگھ ڈیوٹی کیا کرتا تھا۔

شام سات بجے کا وقت تھا جب ہمیں حکم ہوا کہ ہم رات کو راولپنڈی روانہ ہو رہے ہیں۔ اگلے دن ہم راولپنڈی پولیس لائن پہنچ چکے تھے۔ پولیس لائن سے ہمیں راولپنڈی کے مختلف تھانہ جات میں تقسیم کردیا گیا۔ میری اور میرے چند دوستوں کی ڈیوٹی تھانہ صادق آباد لگا دی گئی۔ تھانہ میں ہم سے زیادہ تر رات کو گشت ڈیوٹی لی جاتی یا منشی ”مظہر تابعدار“ ناکے وغیرہ کے لیے ہمیں بھیج دیا کرتا۔ ائیرپورٹ چوک۔ ڈھوک کالا خان اور صادق آباد بازار میں ہم ناکے لگایا کرتے تھے۔

دوران ناکہ ڈیوٹی صادق آباد بازار میں ولی خان پٹھان میرا دوست بن گیا اب اکثر ڈیوٹی سے ہٹ کر بھی میں ولی خان کے پاس جاکر بیٹھ جایا کرتا میرازیادہ وقت ولی خان کے ساتھ ہی گزرتا۔ ولی خان صوابی کا رہنے والا خوش شکل خوش گفتار اور لمبا تڑنگا میرے جیسا پردیسی جوان تھا۔ دیار غیر میں وقت گزار ی کے لیے مجھے ایک اچھا ٹھکانہ اور بہترین دوست مل گیا۔ ولی خان پٹھان عرصہ بارہ سال سے صادق آباد بازار میں گنے کے جوس کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔

وہ بازار میں ہر آنے جانے والے اور آنے جانے والی کے بارے مجھے تفصیل سے بتا یا کرتا۔ ایسا لگتا ولی خان سب کو ذاتی حیثیت میں جانتا ہے۔ سب ولی خان کی بہت عزت کرتے۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی ولی خان کی ریڑھی کے پاس رک کرنقاب ہٹا کے گنے کا جوس پی لیتیں۔ ولی خان سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا مزے کی بات یہ ہے کہ ولی خان نسوار سگریٹ اور دیگر عیاشیوں سے کوسوں دور تھا۔

آج رات گشت کرنے کے بعد میں سوگیا میری سیکنڈ گشت تھی۔ اگلی صبح تقریباً تین بجے دن میں سو کر اٹھا اور سیدھا ولی خان کی ریڑھی پر جاپہنچا۔ مجھے دیکھ کر ولی خان نے حسب معمول ساتھ راحت ہوٹل والے کو آواز دی اوئے لاکا ہمارا جگر آگیا ہے جلدی جلدی اس کے لیے کھانا لے آؤ۔ میری روٹین تھی کہ دوپہر کا کھانا میں ولی خان کی ریڑھی پر جاکر راحت ہوٹل سے ہی کھایا کرتا تھا۔ ایک نقاب پوش عورت ولی خان کی ریڑھی پر کھڑی گنے کا جوس بننے کا انتظار کررہی تھی۔

اس عورت نے دوگلاس گنے کا جوس شاپر میں پیک کروایا اور پیسے دے کر چلی گئی۔ ولی خان نے شرارتاً میری طرف دیکھ کر کہا۔ نیدوخان لاکا اس برقعے والی کو جانتے ہو۔ میں نے کہا ولی خان میں یہاں تمھارے علاوہ کسی کو نہیں جانتا۔ تو وہ اپنے سر میں ہاتھ مار کر کہنے لگا ”نیدو یارا تم کیسا پولیس والا ہے لاکا؟ “ تم نگینہ کو نہیں جانتا ہے۔ یہ نگینہ ہے صادق آباد کی رونق سب پولیس والا اس کو جانتا ہے۔ یہ چار گلیاں چھوڑ کر ایک کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔

اس کے بابا کا سگریٹ کا کھوکھا ہے۔ لوگ سگریٹ لینے کے بہانے ادھر جاتا ہے اور بس، کیا یار۔ اؤے نکے آج ہمارے یار کو بھوکا مارنے کا ارادہ ہے کیا جلدی کھانا لے آؤ۔ بات ادھوری چھوڑ کر ولی خان نے ہوٹل کے ویٹر کو آواز دی۔ میں نے اس برقعہ پوش عورت کو جاتے دیکھ کر کہا۔ ولی خا ان اگر یہ ایسی عورت ہے تو پھر برقعے میں کیوں ہے۔ ولی خان نے کہا لاکا بیچاری لوگوں سے منہ چھپاتا ہوئے گا۔ گندے لوگوں کا کیا بیچاری کو گلی میں ہی پکڑ لیں۔

اس بات کا ولی خان کو بھی پتہ تھا کہ جو مرد اس طرح کی عورتوں کے پاس جا کر منہ کالا کرتے ہیں وہ انسان نہیں انسانوں کی شکل میں سور ہوتے ہیں اور سور کا عزت، شرم، حیا ء سے کیا لینا دینا۔ ولی خان نے گاہکوں کے لیے رکھے بنچ کے ساتھ مجھے پیپسی کی خالی بوتلوں کا کریٹ رکھ کر کرسی میز بنا دیا اور ویٹر اس بنچ پر میرے سامنے پلاسٹک کی چنگیر میں تین روٹیاں پانی کا جگ ا ور لوبیا کا سالن رکھ گیا۔ بظاہر تو میں کھانا کھا رہا تھا مگر میرا دھیان اس برقعہ پوش خاتون کی طرف رہا جب تک وہ گلی کی نکڑ نہ مڑ گئی۔

اب میں جب بھی ولی خان کی ریڑھی پر جاتا تو جاتے ہی ایک ہی سوال کرتا وہ تمھاری برقعے والی آئی کہ نہیں؟ تو ولی خان ہنس کر کہتا۔ ”لاکا پردیس میں رہتے ہو ایسی عورتوں کے چکر میں مت پڑنا۔ چھوڑو برقعے والی کو گھر جاؤ شادی مناؤ اور مزے کرو۔ کیا روز تم برقعے والی کو پوچھتے رہتے ہو۔ وہ تمھار کام نہیں ہے۔ ہم تم کو جانتا ہے تم دل لگی کرتا ہے۔ یہ دل لگی اچھا کام نہیں ہے۔ ہم کو دیکھو ہم اس کو جانتا بھی ہے۔ مگر پھر بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ تم اس برقعے کا عاشق کیوں ہوا پڑا ہے۔

اب ولی خان کو کیا پتہ کہ میں برقعے کے پیچھے چھپی غلاظت تک نہیں بلکہ ایک عورت کے غلاظت بن جانے کے سفر تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ وہ کیا مجبوری ہے کہ باپ نے دروازے میں سگریٹ کا کھوکھا کھول رکھا ہے اور بیٹی نے گھر کے اندر سگریٹ کے دھوئیں شراب کی بدبوسے لتھڑے جنسی درندوں کے لیے انسانی گوشت کی دکان۔

حسب روٹین آج جب میں ولی خان کے پاس پہنچا تو اس نے منہ بنا کر کہا۔ اوئے نیدے لاکا ہم نے آج تھوڑا بے شرمی کیا ہے۔ صرف تمھاری دوستی کے لیے ہم نے نگینہ سے بات کیا ہے۔ آج ہم نے اس سے گنے کے جوس کا پیسہ بھی نہیں لیا۔ ہم نے اسے بولا ہے آج ہمارادوست تمھارے گھر آئے گا بس اسے تھوڑا کمپنی دینا۔ تو وہ ہنس کرکہہ گیا ہے ولی خان بھیج دینا چار بجے وہ تمھارا انتظار کرے گی۔ میں نے کہا واہ ولی خان۔ ولی خان نے کہا چھوڑو واہ شاہ کو ہم دوبارہ تمھیں ادھر نہیں جانے دے گا۔ میں نے کہا لیکن ولی خان تم بھی تو میرے ساتھ جاؤ گے۔ میں اکیلا تھوڑی جاؤں گا۔ ولی خان نے کہا نہیں نہیں لاکا ہم تمھارا یار ضرور ہے مگر ہم ایسا ویسا نہیں ہے۔ ہمیں معاف کرو بھائی۔ میں نے ولی خان کو دوستی کا واسطہ دے کر اور دوبارہ پھر کبھی ادھر نہ جانے کا وعدہ کرکے منا ہی لیا۔

پورے چار بجے ہم نگینہ کے گھر کے باہر سگریٹ والے کھوکھے پہ بیٹھے ادھیڑ عمر مرد سے مخاطب تھے۔ ولی خان نے کہا چاچا نگینہ سے بولو ولی خان گنے کے جوس والا آیا ہے۔ بابے نے کھڑکی سے اندر جھانک کر کہا ٹھیک ہے تم دونوں اندر چلے جاؤ۔

ولی خان نے کہا نیدے خان تم تو پولیس والا ہے کسی نے پکڑ لیا تو ہمارا کیا بنے گا یار۔ میں نے کہا فکر نہ کرو ولی خان میں ہوں نا۔

اس کمرے میں لوہے کے فریم والی ٹیڑھی میڑھی تین چارپائیاں پڑی تھیں۔ ایک چارپائی پہ بچوں کے سکول بیگ اور دوسری چارپائی پہ بستروں کی چادریں اور میلے کچیلے تکیے پڑے تھے۔ ایک کونے میں لکڑی کے میز پر چائینہ کا ٹیلی ویژن پڑا تھا جس کے اوپر مکڑی کا جالا لگا تھا۔ ایک چارپائی پر تکیہ اور چادر سلیقے سے بچھے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک خستہ سی ٹوٹ پھوٹ کا شکار لوہے کے صندوق نما پیٹی پڑی تھی جس کے اوپر چنگیریں کھانے پینے کے برتن اور پیاز سبز مرچیں بکھری پڑی تھیں۔

اس گھر میں رہنے والے خاندان کی آدھی کہانی تو کمرے کا ماحول ہی سنا گیا۔ ایک عجیب طرح کی بدبو نے اس کمرے میں بیٹھنا محال کر رکھا تھا۔ مگر میں تو نگینہ سے ملے بغیر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ولی خان میرے منہ کی طرف اور میں ولی خان کے منہ کی طرف چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک دبلی پتلی گوری چٹی پینتیس چھتیس سال کی خاتون کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی ناک میں نتھلی ہونٹوں پر ہلکی گلابی لپ اسٹک اس کے گورے رنگ کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔

اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا ولی خان تمھارا دوست شراب کون سی پیتا ہے؟ تھوڑی سی چرس اور سگریٹ کا پیکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر کہا پیتے ہو تو سگریٹ بنالو۔ اس سے پہلے کہ ولی خان بولتا میں نے کہا کیا آپ کے ہاں شراب اور چرس بھی ملتی ہے۔ تو نگینہ نے کہا جناب پیسے خرچ کرو اس دنیا میں کیا نہیں ملتا۔ وہ پھر ولی خان سے مخاطب ہوئی۔ ولی خان دونوں کا دوہزار لوں گی شراب نمکو سگریٹ چرس کے الگ پیسے ہوں گے اور ہم دونوں کے درمیان پھنس کر بیٹھ گئی۔

میں نے اٹھنا چاہا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا شرماتے کیا ہو اور ولی خان سے کہنے لگی تم باہر صحن میں چلے جاؤ۔ لیکن میں نے ولی خان کو بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور نگینہ سے پوچھا۔ تم یہ کام کیوں کرتی ہو۔ میرے غیر متوقع سوال پر نگینہ نے بغور میری طرف دیکھا اور کہا تم تماش بین نہیں لگتے شکل سے تو پولیس والے لگتے ہو۔ ولی خان نے بولنا چاہا تو میں نے گھور کر اس کی طرف دیکھا بیچارہ سہم کر رہ گیا۔ میں نے کہا ہاں میں تماش بین نہیں ہوں۔

میں بس تم سے ملنا چاہتا تھا۔ نگینہ نے کہا مجھ سے ملنا۔ مجھ سے وہی ملنا چاہتا ہے جس کے اندر جوانی جوش مارے لیکن تم تو برسوں کی مری ہوئی مچھلی کی طرح سمندر کے کنارے پر پڑے ہو ئے لگتے ہو۔ میرے پاس تمھارے جیسے ڈرپوک اور کمزور مردوں کو تیار کرنے کے لیے بھی سب کچھ ہے۔ تم کیپسول کھا کر دس بیس منٹ باہر بیٹھو میں ولی خان کو مل لیتی ہوں۔ میں نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں سچ مچ تم سے ملنا چاہتا تھا اور صرف باتیں کرنا چاہتا تھا۔

تم یہ سب کیوں کرتی ہو۔ میری بات سن کر وہ ہمارے درمیان سے اٹھ کر سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئی شاید اسے سمجھ آگئی کہ ہمارا مقصد وہ نہیں جس کے لیے دوسرے مرد اس کے پاس آتے ہیں۔ صاب جی چار بچے ہیں خاوند ہیروئن پیتا تھا۔ مجھے عذاب میں ڈال کر مرگیا سالا۔ خاوند کے مرنے کے بعد تولیے کی فیکٹری میں کام پر گئی حرامی مردوں نے کام دینے کی بجائے اپنا اپنا کام نکالا فور مین مینیجر تو کیا مزدور بھی اپنی تنخواہ مجھ پر لٹانے کو تیار تھے لیکن مجھے اپنانے کو کوئی تیار نہ تھا۔ مجھ سے ہمدردی کرنے والا ہرمرد میرے قمیض کے گلے کے اس پار دیکھنے کی کوشش کرتا۔

ہر مرد نے بری نظر سے دیکھا۔ ماں باپ بچپن میں مرگئے تھے۔ بھائی کوئی تھا نہیں ہوتا بھی تو وہ حرامی بھی میری بھڑوا گیری کرتا۔ اس دنیا میں کوئی کسی کو نہیں سنبھالتا۔ لوگ میری جوانی دیکھ کر میری طرف آتے مگر چار بچے دیکھ کر پلٹ جاتے بہت مردوں نے میرے ساتھ عشق محبت کے دعوے کیے مگر میرے کپڑے اترنے تک اپنا مقصد نکل جانے کے بعد کسی نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ بلکہ اپنے ہر عاشق کی نظر میں، میں ایک گندی عورت ہو جاتی۔

پھر میں نے سوچا مفت ان مہذب درندوں کا لقمہ بننے سے بہتر ہے ان سے اس حرام کاری کا معاوضہ لیا جائے۔ میں نے پوچھا تو باہر جو بزرگ بیٹھا ہے تمھارا باپ نہیں؟ باپ کی عمر کا ہے، باپ نہیں۔ یہ تولیہ فیکٹری میں چوکیدار تھا۔ دمے کا مریض ہے فیکٹری والوں نے نکال دیا تو مجھ سے آ ملا۔ میرے چار بچے ہیں چاروں پڑھتے ہیں۔ اب بڑے ہو رہے ہیں اب وہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ یہ مرد کیوں ہمارے گھر آتے ہیں۔ نگینہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے مگر بڑی باحوصلہ عورت تھی۔

ہر بار اپنے آنسوآنکھوں میں ہی جذب کرلیتی۔ میں نے کہا ایسی غلیظ زندگی گزارنے سے بہتر تھا تم کسی مرد سے شادی کر لیتی۔ تو اس نے کہا صاب جی تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں۔ اور ہم تینوں ہنسنے لگے۔ میں نے ہزار روپے نگینہ کو دینے چاہے مگر نگینہ نے یہ کہہ کر میرے پیسے واپس کردیے صاب جی میں نسوانی گوشت بیچ کر پیسے لیتی ہوں۔ جب تم لوگوں نے مجھے نوچا نہیں تو پیسے کس بات کے۔ جب ہم اٹھ کر جانے لگے تو نگینہ نے پیچھے سے آواز دے کر کہا سنو۔ اپنی ماں کو میرا سلام دینا۔ تم نے اس کے دودھ کا حق ادا کیا۔ تمھاری ماں بہت نصیبوں والی عورت ہے۔ پھر کبھی ادھر مت آنا۔ یہ دکان تمھارے جیسے لوگوں کے لیے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).