گنہگار مقتولہ اور بے قصور معاویہ


بھئی یہ کوئی بڑی بات نہیں، روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اسی لیے ہر حکومت ان کوخاطر میں لاتی ہے نہ اہمیت دیتی ہے۔ تھوڑا تاوان اور چند لوگوں کا ورثاء سے اظہار ہمدردی کافی ہوتا ہے۔ تبھی تو کوئی لمبا چوڑا احتجاج نہیں کرتا۔ سنا ہے بہاولپور میں 17 سالہ حافظ قران معاویہ نے ہمسایوں کی 22 سالہ لڑکی فروا شکیل کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش نہر میں پھینک دی۔ حیرت معاویہ کی کم عمری پر نہ حافظ قران پر، کیونکہ جب مدرسوں میں پڑھنے والوں کو کھیل اور تفریح سے دور کر دیا جائے تو وہ اپنا کتھارسس اسی وحشیانہ طریقے سے کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مدرسوں میں صرف رٹو طوطے بنائے جاتے ہیں۔ مقصد شخصیت کی تربیت نہیں بلکہ حافظ کی ڈگری حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اِس ڈگری کا وہ مقصد کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے جو دینی حوالے سے فضیلت کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ آج کل تو یہ دینی علم کی بجائے ایک لیبل بن کر رہ گیا ہے اور پھر اس کے اضافی نمبر بھی ہیں۔ جہاں انٹرویو کے صرف پانچ نمبر ہیں۔ تاہم حفظ کرنے والوں کے متشدد رویے کی وجہ یہ ہے کہ مدرسوں کے بیشتر استاد اپنے طلباء کو حلیمی، رواداری اور اسلام کے آفاقی اصولوں اور انسانی قدروں کا درس دینے کی بجائے انہیں یہ باور کراتے ہیں کہ وہ معاشرے کے دیگر تمام لوگوں سے بہتر بلکہ بہت افضل ہیں۔

یہ سبق ان کے ذہنوں میں ٹھیکیداری سوچ کو جنم دیتا ہے اسی لئے وہ درسگاہ سے نکلتے ہی ڈنڈا لے کر سب کو درست کرنے کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے لوگوں کو تقسیم کرنے کا پھر لڑانے کی نوبت آتی ہے۔ ساری جنت دوزخ، اجر و ثواب اور دنیاوی اچھائی برائی حتیٰ کہ قوموں کے عروج و زوال، عورت کی نافرمانی، دوپٹے اور نیل پالش تک محدود ہو جاتی ہے۔ ان کی توجہ کا زیادہ ارتکاز عورت کی مشکوک حرکات پر ہوتا ہے۔ ویسے ان کے مکتبہ فکر میں اپنی مرضی سے کی جانے والی ہر حرکت مشکوک ہوتی ہے۔

باقی معاملات میں بھی دین کی ایسی ایسی توجیہات سامنے آتی ہیں کہ اللہ کی پناہ مگر اکثریت ان کے سامنے اختلاف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ فتویٰ سے ہر شخص خوف زدہ ہے بھلے وہ کمزور ہو یا کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ یا گورنر۔ ان کے ارشادات ہی میں فتویٰ کی دھمکی پوشیدہ ہوتی ہے اور وہ ٹھیک وقت پراپنا اثر دکھاتی ہے، نہ دوسرا فریق عقلی تاویلوں کے ذریعے متھا لگانے سے باز آ جاتا ہے۔ بات نہیں بڑھتی پھر بھی اگر کوئی سرپھرا باز نہ آئے تو پھر سزا کے حامل بیانات کی لمبی اذیت ناک سیریل شروع ہوجاتی ہے۔

یہی خوف انہیں معتبر اور طاقتور بناتا ہے۔ لوگ ان سے بحث کرتے ہیں نہ ان کا راستہ روکتے ہیں۔ بلکہ سلام کر کے ادب سے راستہ ہی بدل لیتے ہیں۔ قصور کس کا ہے اِن کا یا ہمارا؟ غور کریں ہم نے ہی ایسے لوگوں کو بلند ممبر پر بٹھا کر معاشرے کی تربیت اور فیصلوں کا فریضہ سونپ رکھا ہے جن کی اکثریت کو یہ بھی علم نہیں ہو تا کہ جو لفظ وہ حفظ کر رہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے؟ مسجدوں اور گھروں میں قرآن پڑھنے والی نوجوان لڑکیوں کو بھگا لے جانے کے واقعات اخباروں کی زینت بنتے ہیں جبکہ معصوم لڑکوں سے جنسی تشدد تو عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔

اس کے باوجود والدین سات پشتیں بخشوانے اور جنت میں جانے کی خواہش میں بچوں کو زبردستی حفظ کرواتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ ہر انسان کے اپنے اعمال اس کی گواہی ہوتے ہیں۔ مدرسے سے فارغ التحصیل طلباء کے رویے کی بڑی وجہ تلاش کریں تو احساس ہوتا ہے کہ سماج سے فاصلے اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکنے کے باعث ان کی شخصیت اندر سے ایک ایسے پریشر ککر کی مانند ہوجاتی ہے جو وقت پر ڈھکن نہ اٹھانے کی وجہ سے آخر کار پھٹ جاتا ہے۔

اب سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ سائنسی اور اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کے لئے جدوجہد کریں اسی میں ہر فلاح پوشیدہ ہے۔ ورنہ اگر حافظ معاویہ کی تربیت ہوئی ہوتی تو وہ اپنے ہی محلے کی سکول کی استاد فروا شکیل کو اغوا کرکے تھانے کی محفوظ سرحد کے اندر زبردستی اس کی عزت نہ پامال کرتا۔ اس کا مسئلہ صرف جنس نہیں تھی انتقام بھی تھا۔ رشتے سے انکار کا غصہ جو اس کے سسٹم کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ بھئی ایک عام لڑکی حافظ قرآن کی پسند اور خواہش کا احترام نہ کرے تو اس کی سزا یہی بنتی تھی۔ جسم بھی پامال، روح بھی اور جان سے بھی گئی۔ ورنہ وہ جنسی تسکین کے بعد مظلوم لڑکی کو درندگی کا کمال مظاہرہ کرتے ہوئے چھریوں سے اذیت ناک موت نہ دیتا اور نہ ہی اس کی لاش نہر میں پھینکتا۔

اس سارے عمل میں بھلا سترہ سالہ معاویہ کا کیا قصور ہے۔ قصور ان سب کا ہے جنہوں نے اس کے اغوا کی رپورٹ کی، واویلا کیا اور گرفتار کرنے والی پولیس بھی قصوروار ہے۔ معاویہ تو اب بھی خوف زدہ نہیں ہو گا جبکہ گرفتاری کے بعد وہ اقرارِ جرم بھی کر چکا ہے اورپولیس کو خود بتا چکا ہے کہ وہ (مقتولہ) گنہگار لڑکی سے شادی کر کے اسے فضیلت بخشنا چاہتا تھا مگر لڑکی کے انکار پر اسے مجبورا ًاپنے ایک نیک دوست کے تعاون سے کم عقل لڑکی کو اغواء کر کے تھانہ نوشہرہ کی حدود میں لے جا کر جنسی ہوس کا نشانہ بنانا پڑا مگر وہ جنسی تشدد کے دوران بھی مان ہی نہیں رہی تھی۔

اب بھی اس کے پاس وقت تھا، انکار کی معافی مانگ لیتی۔ آئندہ اچھی بن کر رہنے کا اقرار کر لیتی اورتوبہ کر لیتی تو بچ جاتی مگر وہ نفرت کا اظہار کرتی رہی تبھی تو بیچارے معاویہ اور اس کے معاون دوست کو چھریوں، جو وہ ذبح کرنے کے لئے ہر وقت پاس رکھتے ہیں، سے وار کر کے گستاخ لڑکی کو جہنم واصل کرنا پڑا۔ یہی نہیں لاش کو نہر میں پھینکنا کون سا آسان تھا۔ مرنے کے بعد جسم بہت بھاری ہو جاتا ہے اور گنہگاروں کی لاشیں تو توبہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).