ویہار، بیوپار اور ضامن


\"khurramبنیا کیا جانے ۔ دو اور دو کو چار کرنا ۔ اور بنیا کیا چاہے دو اور دو کو پانچ کرنا ۔ اب بنیا پنسار چلائے یا اخبار ، بنیے کی فطرت \’ خصلت اور حسرت وہی رہتی ہے۔

دنیا کی ہر فیلڈ کی اپنی اصطلاحات ( terms and jargons ) ہوتی ہیں۔ کاروباری دنیا میں بھی چند اصطلاحات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اب میں علم الا شقاق (etymology ) کا ماہر تو ہوں نہیں کہ ان اصطلاحات کی منبع \’ ماخذ اور تاریخ بیان کر سکوں ایک خود فرداختہ چھوٹا بنیا ہوں جو صرف ان کے رائج معانی سمجھ اور سمجھا سکتا ہوں۔

بیوپار میں \” ویہار\” ایک کثیر المستعمل اور انتہائی اہم اصطلاح ہے۔ اردو میں اس کے متبادل ساکھ کا لفظ استعمال ہوتا ہے مگر ساکھ \” ویہار \” جتنا کثیر الجہت اور وسیع المعنی نہیں اور نہ ہی اس جڑی مقامی کاروباری روایت کو بیان کرنے کے قابل ہے۔

ویہار کسی بھی کاروباری شخصیت یا ادارے کی بقا یا فنا کا فیصلہ کرتا ہے۔ عام روایت ہے کہ اگر کوئی شخص سب کچھ بھی نقصان میں کھو دے اور صرف ویہار قائم ہو تو وہ دوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کے پاس بے انتہا وسائل اور دولت بھی ہو لیکن ویہار خراب ہو تو وہ کاروبار کر نے کے اہل نہیں رہتا ۔ یہ بھی مشہور فقرہ ہے کہ ویہار بناتے عمر لگ جاتی ہے اور گنواتے پل نہیں لگتا۔ ویہار بنانے کیلئے کئی ایک کڑی قربانیاں دینی اور مشقتیں سہنی پڑتی ہیں۔ ویہار کے اجزاء و عناصر اعتماد \’ ایقان \’ صاف ستھرا لین دین \’ راست گوئی و راست بازی \’ بقائے باہمی \’ ایفائے عہد \’ نفع باہمی وغیرہ ہیں۔ ویہار کی کوئی لگی بندھی تعریف یا ویہار بنانے کے کوئی فی الفور تراکیب میسر نہیں۔ آپ کے ماضی کے اعمال \’ حال کے احوال اور مستقبل کے متوقع کمال مجموعی طور پر آپ کے ویہار اور اس کے معیار کو متعین کرتے ہیں۔

کاروبار میں کئی لوگ اور اداروں کے مشترکہ مفادات اور اشتراک کی بنیاد پر\” لیں دین \” کے معاملات طے پاتے ہیں۔ عموما کاروباری \"Hafiz-Saeed-Horse\"اصطلاح میں لین دین \’ خرید و فروخت میں ملوث تمام متعلقہ لوگوں کو انفرادی طور پر پارٹی کہا جاتا ہے۔ ہر پارٹی کے ویہار اور معیار کو پرکھ کر اس کے مطابق \” ڈیل \” کی جاتی ہے۔

بعض اوقات بوقت ضرورت اگر پارٹی کا ویہار ٹھیک نہ ہو لیکن ڈیل ضروری ہوتو کسی \” ضامن \” کا بندوبست کیا جاتا ہے جو ڈیل یا سودے کی طے شدہ شرائط پر تکمیل کی ضمانت دیتا ہے اور اسے یقینی بناتا ہے۔

اب کاروبار تو کاروبار ہوتا ہے اور ہمارے ہاں تو مملکت کے چلانے کو بھی \” کاروبار مملکت \” چلانا ہی کہا جاتا ہے۔

میرے گاوں میں جب میں چھوٹا تھا تو میں اپنی مرحومہ نانی اماں کے ساتھ جا رہا تھا مجھے خشک کھانسی تھی اور ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اتنے میں سامنے سے سولا نائی ( جو یقینا رسول سے کثرت استعمال \’ یا سہولت کی خاطر اختصار کے استعمال سے یا دیہی رواج کے تحت بگاڑا گیا تھا) اپنے کالے گھوڑے پہ بیٹھا اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برا ہو کر آرہا تھا ۔ دیہاتوں میں آج بھی سیپی ہوتے ہیں جو آپ کی ہر خدمت گھر آکر بجا لاتے ہیں اور فصلوں کی تیاری پر انہیں حصہ دیا جاتاہے۔ نانی اماں نے اسے روکا اور پوچھا کہ میرے نواسے کو بہت کھانسی ہے اس کا علاج بتاو۔ اس نے کہا گڑ کھاو ۔ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے میں نے نانی سے استفسار کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ اگر کھانسی ٹھیک نہ ہورہی ہو تو جو شخص کالے گھوڑے پہ سوار ہو کہ آریا ہو اس سے علاج پوچھو جو بتائے وہ کھالو کھانسی ٹھیک ہوجاتی ہے۔

ہاں تو بات ہورہی تھی کاروبار مملکت کی۔ جب گلی کے ایک کونے سے پاک سرزمین شاد باد اور دوسرے کونے سے پاکستان زندہ باد کی صدائیں آرہی ہوں اور سمجھ نہ آرہی ہو کہ سودا کیسے کریں کیوں کہ پارٹیوں کا سابقہ ویہار کچھ ٹھیک نہ ہو تو وہ جو کالے گھوڑے پہ سوار مینار پاکستان کے اردگرد گھوم رہا ہو اس سے علاج پوچھ لو کہ ضامن کس کو بنائیں ۔ کیوں کہ ان کےضامن بہت پکے ہیں ۔ پارٹی نے ان کے ساتھ کبھی ویہار خراب نہیں کیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments