بے مصرف قلم سے، پاجامے میں ناڑا ڈالتا ہوں


صاحب آپ کیا کرتے ہیں؟

جی، میں؟

جی، آپ ہی سے مخاطب ہوں۔

اوہ، ہاں، میں۔

جی میں ویسے تو پروفیسر ہوں، لیکن آج کل، قلم سے پاجامے میں ناڑا ڈالنے کا کام کرتا ہوں۔ پھر نکال کر پھر ڈالتا رہتا ہوں۔

صاحب آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے۔ آپ خود کو پروفیسر بتا رہے ہیں، پینٹ کوٹ پہنے ہوئے ہیں رویؔے سے بھی نارمل انسان لگ رہے ہیں مگر باتیں بہکی بہکی کر رہے ہیں۔ کوئی پروفیسر پاجامے میں ناڑا ڈالنے کا کام بھی بھلا کرتا ہے۔ کہیں آپ فلسفے کے پروفیسر تو نہیں رہے؟

آپ نے صحیح پہچانا۔ مسکراتے ہوئے میں نے جواب دیا۔ پہلی بات تو یہ کہ میں پروفیسر رہا نہیں بلکہ تنخواہ خوار پروفیسر تو اب بھی ہوں۔ صاحبِ علم پروفیسر کا جو تصور ذہن میں لے کر علم کے میدان میں آیا تھا، ویسا اہلِ علم پرو فیسر ڈھونڈ تے تو عمر بیت گئی۔

دوسری بات یہ کہ، جب پروفیسر قلم سے کچھ نہ لکھے؛ معاشرے میں سوچ و فکر کی جگہ نہ رہے؛ نئی سوچ بدعت قرار پائے؛ روایت سے ہٹ کر بات کرنا، نا فرمانی سمجھا جائے؛ تنقید کو احترام کے منافی قرار دے کر ناقد کو بد تمیز اور متعوب قرار دے کر، بات سننے سے انکار کیا جائے اور ملاقات کو بدنامی سمجھا جائے؛ سوالات کے جوابات کو عقل و تحقیق کی بجائے اسلاف کے اقوال تک محدود کر دیا جائے؛ ماضی کے علوم کی موجودگی میں نئے تجرباتِ علم کو وقت و بجٹ کا ضیاع قرار دیا جا ئے؛ تجربہ میں غلطی کے خوف سے مزید تحقیق سے اجتناب کیا جائے؛ سلیبس کے دائرہ کو علم کی حدود، علمی موشگافیوں اور قیاسات کو غیر متعلقہ گپ آرائی اور لیکچر تیار نہ ہونا اور وقت گزاری کا الزام بنایا جائے؛ پروفیسر بس ٹیوشن نیز سر براہِ ادارہ کی چاکری، جب کہ شاگرد صرف نوکری کے لئے ڈگری کے حصول تک محدود رہ جائیں، طلبا کی سوچ کو امتحان اور گا یئڈز کے رٹے تک پابند کر دیا جائے؛ ادارے اپنے باس کی خوشنودی کا مرکز اور ماتحت افراد صرف فرمانِ عالیہ کی تعمیل کے پابند ہوں، اہلِ علم پالیسی کے جبکہ اہل قلم کی سوچ لفافہ تک محدود ہو، تو آپ ہی بتایئے کہ علم کے متلاشی، تفکر و تدبر کے متوالے، اپنے قلم سے پاجامے میں ناڑے نا ڈالیں تو اس بے مصرف قلم سے آخر کریں کیا۔

موصوف نے از راہِ تفنن فرمایا، پروفیسر صاحب، اب آپ علاج کے قابل نہیں رہے۔ اور چلتے بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).