عمران خان مودی کے طعنے کا کیا جواب دیں گے؟


پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے نیویارک میں ایک تھنک ٹینک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ انہیں بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی اور مودی جیسے لیڈر کی موجودگی میں پاکستان سے زیادہ بھارت کی فکر ہے کیوں کہ وہ ان چند پاکستانیوں میں شامل ہیں جنہیں بھارتی عوام سے بے حد محبت ملی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ شب ہوسٹن میں ’ہاؤ ڈی مودی‘ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار پاکستان کے بارے میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اپنے یہاں (کشمیر میں) جو کر رہا ہے اس سے کچھ ایسے لوگوں کو بھی مسئلہ ہے جن سے خود اپنا دیس سنبھل نہیں رہا ہے‘۔ دیکھنا ہوگا عمران خان اس طعنہ کا کیا جواب دیتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ برصغیر کے یہ دونوں لیڈر اس وقت اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے امریکہ میں موجود ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے اپنے مؤقف پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ رات نریندر مودی نے امریکی صدر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور توقع کے برعکس صدر ٹرمپ کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے اقدامات کو بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شق 370 کا خاتمہ کشمیریوں کو بھارت کے دیگر شہریوں کی مساوی حقوق دینے کے لئے ضروری تھا۔ اس شق کے تحت کشمیری شہریوں کو اپنی خود مختاری اور شہری آزادیوں کے حوالے سے مخصوص تحفظات حاصل تھے۔ مودی ان مراعات کے خاتمہ ، تمام کشمیری قیادت کو قید ، پچاس روز سے مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں باشندوں کو کرفیو کے ذریعے گھروں میں بند اور انٹرنیٹ، موبائل و ٹیلی فون سہولتیں ختم کرنے کے باوجود دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے صدر کے سامنے ’کشمیریوں کو مساوی حقوق‘ دینے کا مضحکہ خیز دعویٰ کررہے تھے۔ لیکن انتخاب کی مجبوری ، بھارت کے ساتھ وابستہ مفادات اور مودی کی خوشامد نے ٹرمپ کی زبان پر تالہ لگادیا تھا۔

تھوڑی دیر پہلے نیویارک میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات سے پہلے میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے پاس صحافیوں کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ وہ حسب عادت عمران خان کی تعریف کرکے اور ثالثی کی پیش کش کو دہرا کر کشمیر کے بارے میں سوالوں کو ٹال گئے۔ بھارت نے کشمیری عوام کے ساتھ گزشتہ سات ہفتوں کے دوران جو غیر انسانی اور غیر مہذب سلوک روا رکھاہے، امریکی صدر اس کا جواب دینے پر بھی آمادہ نہیں تھے۔ پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ا س ملاقات سے بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔

ہوسٹن میں ’ہاؤ ڈی مودی‘ ریلی کے موقع پر امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں ، سکھوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں نے این آر جی اسٹیڈیم کے باہر مظاہرہ کیا اور نریندر مودی کو نسل پرست و ہندو انتہا پسند قرار دیا۔ تاہم اسٹیڈیم کے اندر مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ڈونلڈ ٹرمپ، بھارتی وزیر اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جمع ہونے والے پچاس ہزار امریکی بھارتی باشندوں کے منہ سے اپنا پسندیدہ نعرہ ’ یوایس اے‘ سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس وقت ان کے دماغ میں کشمیریوں کی حالت زار، مودی حکومت کے سفاکانہ اقدامات یا اپنے دوسرے ’عزیز ترین دوست ‘ عمران خان کی پریشانی یا مشن کشمیر کے بارے میں کوئی سوال نہیں تھا بلکہ وہ یہ حساب لگانے کی کوشش کررہے تھے کہ بھارت کے مقبول ترین لیڈر مودی کی پر زور تائید کے بعد انہیں آئندہ انتخابات میں چالیس لاکھ امریکی بھارتیوں کے کتنے اضافی ووٹ مل سکیں گے۔

نریندر مودی نے بھی صدر ٹرمپ کی تعریف کرنے اور ان کی صدارت کی توثیق کرنے میں ہر سفارتی حد پار کرنے سے گریز نہیں کیا۔ دراصل نریندر مودی جو ہتھکنڈے بھارتی اقلیتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں ، صدر ٹرمپ بھی انہیں امریکہ میں آزمانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے یہ دعویٰ کیا کہ ’ان لوگوں نے انڈیا کے خلاف نفرت کو اپنی سیاست کا محور بنا لیاہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو امن نہیں چاہتے۔ دہشت گردی کے حامی ہیں اور دہشت گردوں کو پالتے پوستے ہیں۔ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکہ میں نائن الیون ہو یا ممبئی میں 26 نومبر کے حملے ، ان کی سازش کرنے والے کہاں پائے جاتے ہیں‘۔

اس کے بعد مودی نے صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اور اس کی ترویج کرنے والوں کے خلاف مل کر لڑائی لڑی جائے‘۔ مودی نے دعویٰ کیا کہ اس لڑائی میں امریکی صدر ٹرمپ پوری مضبوطی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے جلسہ گاہ میں موجود بھارتی باشندوں سے کھڑے ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ کو تعظیم دینے کی اپیل کی۔ تالیوں اور نعروں کی گونج میں ٹرمپ کو مودی کی ہر بات بھلی لگ رہی تھی۔

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور ملکی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسند ایجنڈے پر گامزن بھارتی لیڈر کو یہ بلند بانگ دعوے کرنے کا موقع بھی خود ٹرمپ نے فراہم کیا تھا جو خود مودی جیسے ہی انتہاپسند ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ وہ تارکین وطن کے خلاف اقدمات کو امریکہ کی حفاظت قرار دیتے ہیں اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ہوسٹن کی ریلی میں صدر ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے خطے میں کشیدگی کا موازنہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر سیکورٹی سے کیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اور امریکہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہو گی۔ ہم ان تمام انڈین اور امریکی فوجیوں کی قدر کرتے ہیں جو عوام کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ ہم انتہا پسند اسلامی دہشت گردی سے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں‘۔

ٹرمپ اور مودی کے خیالات کی یہ مماثلت اتفاقیہ نہیں ہے۔ دونوں لیڈروں کے سوچنے اور کام کرنے کا طریقہ یکساں ہے۔ دونوں اپنے اپنے ملک کے مذہبی انتہا پسند گروہوں کی تائید و حمایت سے اقتدار تک پہنچے ہیں اور اس انتہا پسندی کو فروغ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ امریکی صدر کے اسلامی دہشت گردی کے خلاف پیغام کے بعد ہی بھارتی وزیر اعظم کو  نام لئے بغیر پاکستان کو اسلامی دہشت گردی کا گڑھ قرار دینے اور امریکہ و بھارت کو اس کا شکار کہنے کا موقع ملا۔ ہوسٹن کا پاور شو دراصل دو مقبول اور انتہا پسند لیڈروں کی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کا نادر موقع تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا ایجنڈا سامنے لانے کا پورا موقع دیا ۔ ایسے میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے احترام کی بات کسی کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

یہی وجہ ہے کہ عمران خان سے ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اگر آپ کو شکائتیں ہیں تو میں نریندر مودی سے بھی نہایت ’جارحانہ‘ باتیں سن کر آیا ہوں ۔ اس لئے دونوں ملکوں کو مل جل کر ا س مسئلہ کو حل کرلینا چاہئے۔ اگر دونوں چاہیں گے تو میں ثالثی یا مدد فراہم کرنے کو تیار ہوں۔ یہ جاننے کا انتظار رہے گا کہ کیا عمران خان اس ملاقات کے دوران ہوسٹن کی ریلی میں صدر ٹرمپ کی موجودگی میں پاکستان کے خلاف مودی کی اشتعال انگیز الزام تراشی پر کوئی حرف شکایت زبان پر لائے یا وہ اسی بات کی کوشش کرتے رہے کہ صدر ٹرمپ کسی طرح طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں تاکہ پاکستان کو یہ ’اعزاز‘ حاصل رہے کہ وہ اب بھی دنیا کی سپر پاور کے کسی کام کا ہے۔

صدر ٹرمپ سے ملاقات کے علاوہ نیویارک میں عمران خان کی اہم ترین مصروفیت ایک تھنک ٹینک’ کونسل فار فارن ریلیشنز‘ کے اجتماع سے خطاب تھا۔ اس موقع پر جو گفتگو کی گئی اس کی تلخیص کچھ یوں ہوگی:

 الف) سوویٹ یونین کے خلاف جنگ میں آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کے تعاون سے جو جہادی تیار کئے گئے تھے، نائن الیون کے بعد پاکستان سے ان کے خلاف کارروائی کے لئے کہا گیا حالانکہ انہیں ’حملہ آور‘ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے ہی تیار کیا گیا تھا اور امریکہ سوویٹ فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستان کو اکیلا چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا۔

 ب) نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت غلط فیصلہ تھا جس کی وجہ سے 70 ہزار پاکستانی شہری شہید ہوئے اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہؤا۔

 ج) دنیا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اس مسئلہ کو حل کروائے۔ امریکی صدر ثالثی کی بات کرتے ہیں تو بھارت کہتا ہے کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ پھر مذاکرات سے انکار کردیتا ہے۔

د) کشمیر کے معاملہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ جب جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ملک آمنے سامنے ہوں گے تو جنوبی ایشیا ہی نہیں پوری دنیا کو اس سے خطرہ ہوگا۔

یہ وہی باتیں ہیں جو عمران خان نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کے بارے بھارتی حکومت کے فیصلوں کے بعد سے تواتر سے کہی ہیں۔ غالب امکان ہے کہ جمعہ کے روز جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر میں بھی یہی باتیں دہرائی جائیں گی۔ کشمیر میں بھارت کے جابرانہ اقدامات کا کوئی جواز نہیں لیکن دنیا پھر بھی مودی کو گلے لگا رہی ہے کیوں کہ بھارت معاشی ، سفارتی اور اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم ہوچکا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم تو مودی کے اس طعنہ کا جواب بھی دینے کی پوزشن میں نہیں ہیں کہ جن سے اپنا ملک نہیں سنبھلتا وہ بھی بھارت پر انگلی اٹھاتے ہیں۔

دشمن ملک کے وزیر اعظم کی بات کا جیسے چاہے تمسخر اڑا لیا جائے یا اس پر غصہ کا اظہار کیا جائے لیکن اس کا جواب دینے کے لئے ملکی حالات کو درست کرنا پڑے گا۔ دنیا میں عزت حاصل کرنے کے لئے بھی یہی راستہ چننا پڑتا ہے۔ یہی سفر کرتے ہوئے بھارت ، امریکہ کے علاوہ دنیا کے سب ملکوں کے لئے ناگزیر ہوچکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali