کپتان، یہ دنیا بہت ایڈیٹ ہے۔ غیر سنسرشدہ کالم


وزیراعظم عمران خان طویل ترین دورے پر امریکہ پہنچ چکے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہے۔ وزیراعظم امریکہ پہنچنے پر ہوائی جہاز سے باہر آئے تو ان کے وفد میں شامل معاون خصوصی زُلفی بخاری چیونگم چبا رہے تھے۔ سنا ہے ان کے اس انداز پربھارتی ایوانوں پرلرزہ طاری ہوگیا اور وہ یہ سوچ کر مضطرب ہیں کہ پاکستانی وفد نے ان کے موقف کو بھی چیونگم کی طرح چبا کر پھینک دیا تو کیا ہوگا۔ وزیراعظم نے جمعہ 27 ستمبرکواقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے اور اس سے پہلے ان کی دو مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوگی۔

کشمیرسے متعلق سفارتی محاذ پر بھی حالات نہایت غیر موافق دکھائی دے رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے اجلاس سے کسی جادوئی پیشرفت کی توقع نہیں مگر نجانے کیوں یوں لگتا ہے جیسے عمران خان اپنی تقریر کے ہیٹ سے اچانک کوئی کبوتر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں سب سے اہم ترین کارروائی یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کونسل کی نشست ہے جہاں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ یواین ایچ سی آر میں کسی بھی معاملے کو زیر بحث لانے کے دو طریقے ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی بھی ملک قرارداد لائے اور دوسرے طریقے کو توجہ دلاؤ نوٹس کہا جاسکتا ہے جس میں کسی بھی مسئلے کو محض زیر بحث لانے کی استدعا کی جا سکتی ہے۔

اگر آپ عالمی ادارے کی حقوق انسانی کونسل میں کوئی قرارداد لانے کے متمنی ہیں تو آپ کو یواین ایچ سی آر کے 47 رُکنی ایوان کے کم ازکم 15 ارکان کی تائید و حمایت درکار ہوتی ہے تاہم کسی معاملے کو زیر بحث لانے کے لئے رکن ممالک کی پیشگی حمایت درکار نہیں ہوتی۔ البتہ زیر بحث لانے میں بھی ایک اہم مرحلہ تب آتا ہے جب متعلقہ فریق کسی بھی ایشو کو زیر بحث لانے کے لئے ووٹنگ کا مطالبہ کردے۔ پاکستان نے آخری مرتبہ 1994 ء میں تب بھارت کے خلاف یواین ایچ سی آر میں قرارداد لانے کی کوشش کی جب بھارتی فوج نے درگاہ حضرت بل کا محاصرہ کررکھا تھا۔

اس وقت پاکستان میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں جبکہ بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔ پاکستان اور بھارت میں سے کسی کو بھی اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں کامیابی کا یقین نہیں تھا اور مقابلہ بہت سخت تھا اس لئے درمیانی راستہ اختیار کیا گیا اور مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان نے یہ قرارداد واپس لے لی۔ اب 25 برس بعد پاکستان کے پاس یہ موقع تھا کہ بھارت کے خلاف یواین ایچ سی آر میں قرارداد لائی جاتی مگر اطلاعات ہیں کہ یہ موقع گنوا دیا گیا ہے۔

19 ستمبر تک قراررداد جمع کرواکے ایجنڈے پر لائی جاسکتی تھی مگر پاکستانی حکام یہ مرحلہ شوق طے نہیں کرپائے جس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ قرارداد کے لئے 15 رُکن ممالک کی حمایت حاصل نہیں کی جا سکی۔ او آئی سی کے 57 رُکن ممالک میں سے 15 ممالک یواین ایچ سی آر کا حصہ ہیں، اگر عمران خان چارٹرڈ طیارہ لینے کے بجائے اس قرارداد کی حمایت پر اصرار کرتے تو سفارتی سطح پر بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی۔ اب تو محض یہی راستہ بچ گیا ہے کہ توجہ دلاؤ نوٹس کے تحت کشمیر کی صورتحال کو زیر بحث لانے کو کہا جائے اور پھر ایک ایسا بے ضرر سا مذمتی بیان جاری ہو جائے جس سے دونوں ملکوں کی سفارتی پالیسی پر کوئی فرق نہ پڑے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مگر وہ بھی اقوام متحدہ کے برفانی ایوان میں اپنی شعلہ بیانی سے آگ نہ لگا سکے۔ 15 دسمبر 1971 ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونس کے اجلاس میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں ہزار سال بھی لڑنا پڑا تو لڑیں گے۔ اگر تم لے سکتے ہوتو پانچ یا دس سال کے لئے مشرقی پاکستان لے لو لیکن ہم یہ واپس لے کر رہیں گے کیونکہ یہ تاریخ کا سبق ہے“ ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا، ”میں نے زندگی میں کبھی واک آؤٹ نہیں کیا، مجھ پر قاتلانہ حملے ہوئے، میں پابند سلاسل رہا، میں ہمیشہ مردِبحران رہا ہوں۔ آج میں واک آؤٹ نہیں کر رہا لیکن میں آپ کی سکیورٹی کونسل سے جا رہا ہوں، میں یہاں ضرورت سے زیادہ ایک پل رُکنے کو بھی اپنی ذات اور اپنے ملک کے لئے تضحیک آمیز تصور کرتا ہوں، مگر میں بائیکاٹ نہیں کر رہا، کردو مسلط، کوئی بھی فیصلہ مسلط کردو، بدترین معاہدہ لے آؤ، جارحیت کو قانونی حیثیت دیدو، قبضے کو قانونی حیثیت دیدو، ہر وہ چیز قانونی قرار دیدو جو 15 دسمبر 1971 ء تک غیرقانونی تھی مگر میں اس عمل میں شریک نہیں ہوں گا، ہم لڑیں گے، ہم واپس جاکر لڑیں گے، میرا ملک مجھے بلاتا ہے، میں یہاں سکیورٹی کونسل میں اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟ میں اپنے ملک کی طرف سے اس ذلت آمیز سرنڈرکاحصہ نہیں بنوں گا، آپ اپنی سکیورٹی کونسل اپنے پاس رکھیں، میں جا رہا ہوں۔ “

یہ کہتے ہوئے بھٹو نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے کاغذ کو ٹکڑے کو پھاڑ کر پھینک دیا اور وہاں سے چلے آئے۔ ہزار سال لڑنے کی بات محض الفاظ کی جادوگری تھی کیونکہ جب بھٹو یہ تقریر کر رہے تھے تو مشرقی پاکستان میں 16 دسمبر کا سورج طلوع ہو چکا تھا اور سرنڈر کی تقریب منعقد کرنے کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔

بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بہت متاثر کن خطاب کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی اورمسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔ جب مظفرآباد میں حریت رہنماؤں کی وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ہوئی اور اس میں عالمی برادری کی بے حسی کا معاملہ زیر بحث آیا تو عمران خان نے کہا کہ آپ اقوام متحدہ میں میری تقریر کا انتظار کریں۔ 27 ستمبر کو میری تقریر سے پوری دنیا یوٹرن لے گی اور کشمیر آزاد ہو جائے گا۔

جیو نیوز سے منسلک صحافی شبیر ڈار کا دعویٰ ہے کہ یہ بات حریت کانفرنس کے کنوینئر عبداللہ گیلانی نے انہیں بتائی جو سید علی گیلانی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے مزاج کے پیش نظر یہ بات بعید از قیاس تو نہیں مگر ممکن ہے انہوں نے یہ بات نہ کہی ہو البتہ اگر ایسا ہو جائے توکیا ہی بات ہے دنیا میں آخر معجزے بھی تو ہوتے ہیں۔ ورلڈ کپ بھی تو ہم نے انہی حالات میں جیتا تھا۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ ٹیم ورلڈ کپ جیت جائے گی؟ میرے کپتان نے یہ انہونی کر دکھائی۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے یہ اب نہیں ہوگا۔ دنیا بہت ایڈیٹ ہے، اسے یوٹرن کی افادیت و اہمیت کا اِدراک نہیں۔
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri