درد چھپاتا میک اپ اور خودکشی کرتی بیٹیاں


گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی۔ کسی باہر کے ملک کی بنی ہوئی تھی اور اس میں سکھایا گیا تھا کہ گھریلو تشدد سے پڑنے والے نشانات کو خواتین کیسے میک اپ کی دبیز تہوں میں چھپا سکتی ہیں۔ اس قدر اصلاحی مقصد کے لئے بنی ویڈیو دیکھ کے میری تو آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔ اب بھی دنیا میں ایسے نیک صفت لوگ موجود ہیں جو سرکش اور باغی خواتین کی اصلاح پر یقین رکھتے ہیں اور اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ویڈیو ٹیوٹوریلز بنا کے ریلیز کرتے رہتے ہیں۔ ماشاءاللہ!

اس ویڈیو کو دیکھ کے خیال آیا کہ ہمارے ہاں کے مرد جو خواتین کی اصلاح کے لئے ”ہلکی پھلکی مار پیٹ“ کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، اب وہ کم از کم میک اپ کی شاپنگ اور خواتین کے میک اپ پر ہرگز اعتراض نہ کریں گے ورنہ اب تک تو بیچارے بس میک اپ زدہ چہروں اور جن چڑیل کے موازنے سے اپنے دل کو تسلی دے سکتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس قسم کے موازنوں پر مبنی واہیات لطیفے شیئر کرکے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ سکتے تھے، لیکن اب نہیں۔ اب وہ اس شر سے بھی خیر کا پہلو برآمد ہونے پر صدشکر بجا لارہے ہوں گے۔

ویسے نجانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ چند روز قبل موت کے منہ میں جانے والی آمنہ بھی میک اپ کی دبیز تہوں میں اپنے زخم چھپانے کا ہنر جانتی تھی، جب ہی تو اس کے باپ نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرا۔ ذرا سوچیئے تو، بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بیٹی شوہر کے مظالم سے تنگ آکے میکے جائے اور باپ اسے دہلیزسے اندر قدم نہ رکھنے دے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ یہاں تو چادر چار دیواری کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے کہ پڑوسی اگر اپنی بیوی کو پیٹ رہا ہو تو بھی ہم بچانے کے لئے بیچ میں نہیں پڑتے کہ بھئی ان کا گھریلو مسئلہ ہے، جو بھی ہورہا ہے چادر چاردیواری کی حدود میں ہورہا ہے، ہم کیوں مخل ہوں، وہاں پر ایسا کیسے ممکن ہے کہ بیٹی منہ اندھیرے باپ کے دروازے پر دستک دے اور باپ یہ کہہ کے دروازہ بند کرلے کہ تم کو پاگل خانے بھجوا دوں گا، قتل کروا دوں گا۔

خیر ہمیں کیا۔ آمنہ تو منوں مٹی تلے جا سوئی۔ اب تو روز محشر ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھے گا کہ بھلا اسے کیا تکلیف تھی جو وہ یوں آئے دن فیس بک پر لائیو آکے اپنے جلے ہوئے زخم دکھاتی تھی۔ نیک اور شریف بیبیوں کی طرح انہیں فاؤنڈیشن کی تہوں میں کیوں نہ چھپاتی تھی۔ البتہ لوگوں کی تکلیف ہے کہ کم ہی نہیں ہورہی ہے۔ کسی کو آمنہ کے کردار پر شبہ ہے تو بہت سوں کے لئے اس کے شوہر کے بے قصور ہونے کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ شوہر ظالم ہوتا تو بھلا فیس بک پر لائیو آنے دیتا، موبائل نہ چھین لیتا۔

کسی کو اس کے گہرے میک اپ پر اعتراض ہے کہ نیک سیرت عورتیں بھلا سوشل میڈیا پر اس قدر سجی سنوری تصویریں یوں کھلے عام ڈالتی ہیں؟ یہاں نیک سیرتی کا کیا معیار ہے، یہ آج تک مجھے سمجھ نہیں آیا۔ البتہ مظلوم عورت بس وہی ہے جس کا ڈولا اس کے مجازی خدا کے گھر سے نکلے۔ اس کے اندر سفید کفن میں لپٹی لاش پر کتنے گھاؤ ہیں یا روح کتنی زخمی ہے، اس کا انکشاف مرنے کے بعد ہو، تب تو اسے شریف اور پارسا کا سرٹیفکٹ مل سکتا ہے، زندگی میں آواز بلند کرے تو نہیں۔

اچھا ویسے بھلا ہو مارک ذکربرگ کا، ان کی مہربانی سے ہر موقع کی مناسبت سے کوئی نہ کوئی تصویری پیغام چل نکلتا ہے، جسے پرانے زمانے کی فاتحہ خوانی کے تقریباً برابر ہی سمجھیں۔ ادھر کسی کو اپنے دکھوں اور تکلیفوں سے نجات ملی اور ادھر والز ان مخصوص پیغامات سے سج گئیں۔ بیچاری آمنہ کی بدولت بھی وہ طلاق یافتہ بیٹی بمقابلہ تابوت میں لیٹی ہوئی بیٹی والی پوسٹ خوب وائرل ہورہی ہے۔

اب یہ البتہ معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے ہی ہوں گے جو واقعی اس پر قول پر سچے دل سے ایمان بھی لائے ہوں گے یا جن کے دل میں پرائی بیٹی کے لئے جاگنے والا یہ درد اپنی بیٹی کے معاملے میں بھی جاگتا ہوگا، اس بارے میں سخت شبہات ہیں کیونکہ آج ہی ایک جگہ پڑھنے کو ملا ہے کہ پاکستان خواتین کے تحفظ کے معاملے میں چھٹے نمبر پر بدترین ملک ہے جہاں ہر سال اوسطاً پانچ ہزار خواتین گھریلو تشدد سے ہلاک ہوتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پانچ ہزار آمناؤں کے والد ”بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں“ کے فلسفے پر خوب یقین رکھتے ہیں، جب ہی تو بیٹیوں کے معاملے میں اس قدر غیریت پر مبنی سلوک کرتے ہیں۔ وہ ظلم کے خلاف دھائی دیں تو کان لپیٹ لیتے ہیں۔ ویسے صحیح ہی تو کرتے ہیں۔ بیٹیاں پرایا دھن مرے یا جیئے، ان کی بلا سے۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi